|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

موجودہ دور میں حقوق میں شرک کی کوئی مثال؟

غائبانہ مافوق الاسباب پکار ﷲ کا حق ہے۔موجودہ دور میں اللہ کے حق میں شرک کیا جاتا ہے کہ یوں پکارا جاتا ہے کہ یا رسول اللہ مدد، یا غوث مدد، یا پیر بابا مدد وغیرہ یہ سب شرک ہے۔ جیسا کہ فرمایا

لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُون
اسی کو پکارنا برحق ہے رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں
(الرعد ۔ 14)

مساجد میں اللہ کے پکار کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی پکار بھی لگائی جاتی ہے یہاں تک کہ دیواروں پر بھی انظر حالنا یا رسول اللہ (اے اللہ کے رسول میرے حال ہر نظر کیجئے) یا اغثنی یا رسول اللہ (اے اللہ کے رسول میری فریادرسی کیجئے) وغیرہ لکھ دیا جاتا ہے یہ شرکیہ پکاریں ہیں اور اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے۔

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا
اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لئے ہیں، لہٰذا اُن میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو
(جن ۔ 18)

قرآن و سنت کی روشنی میں حقوق میں شرک کا مطلب ہے کہ انسان کسی کا ایسا حق تسلیم کرے جو اللہ تعالیٰ کے خاص حقوق میں سے ہو، اور وہ حق کسی غیر کو دے دے جیسا کہ تشریع (قانون سازی)، بندگی، یا فیصلہ کا حق۔ یہ عمل شرک فی الحقوق کہلاتا ہے اور توحید کے منافی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ

“حکم (قانون بنانے کا اختیار) صرف اللہ کے لیے ہے، اس نے حکم دیا کہ صرف اسی کی عبادت کرو۔”
(یوسف: 40)

جیسے کسی انسان یا پارلیمنٹ کو یہ حق دینا کہ وہ اللہ کی شریعت کے خلاف قانون سازی کرے۔
یہ عقیدہ اور عمل کہ کوئی شخص یا ادارہ حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر سکتا ہے، دراصل اللہ کے تشریعی حق میں شرک ہے۔ اللہ کے سوا کسی کو قانون سازی یا حلال و حرام کا تعین کرنے کا اختیار دینا۔

نبی ﷺ کا فرمان:
“أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ… “

“آگاہ رہو! مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے ساتھ اس کی مانند (سنت) بھی۔ قریب ہے کہ ایک پیٹ بھرا شخص اپنے تخت پر کہے: صرف قرآن کو مانو…”
(سنن ابوداؤد: 4604)

یہ حدیث اس خطرے کی طرف اشارہ ہے کہ لوگ اللہ کے دیے ہوئے مکمل دین کو چھوڑ کر اپنی مرضی کے اصول وضع کریں گے، اور یوں حقوقِ تشریع میں شرک کے مرتکب ہوں گے۔

موجودہ دور میں اگر کوئی اللہ کے بجائے انسانوں یا پارلیمنٹ کو حلال و حرام کے تعین کا مالک سمجھے، یا ان قوانین کو بہتر مانے جو اللہ کے قانون کے خلاف ہوں، تو یہ شرک فی الحقوق ہے۔
ایک مومن کا عقیدہ یہ ہے کہ قانون، عبادت، فیصلے، نظامِ عدل و اخلاق سب صرف اللہ کے حکم سے ہونے چاہئیں۔ یہی توحید کی روح ہے۔

“وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ”

“جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے، تو وہی لوگ کافر ہیں۔”
(المائدہ: 44)

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔