|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

قرآن میں بارش اور زمین کی مثال سے کون سا عقیدہ واضح کیا گیا؟

قرآنِ کریم میں بارش اور زمین کی مثال بارہا اس لئے دی گئی ہے تاکہ اسکو ثابت کیا جائے کہ مرنے کے بعد لازماً دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ انسان توحید، قیامت اور حیات بعد الموت (مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے) کے عقیدے کو سمجھے۔ یہ تشبیہات نہ صرف فطرت کی نشانیاں ہیں بلکہ وہ عقلی دلائل بھی ہیں جو مردہ دلوں کو زندہ کر کے ایمان کی طرف مائل کرتی ہیں۔

اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهٗ فِي السَّمَاۗءِ كَيْفَ يَشَاۗءُ وَيَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ ۚ فَاِذَآ اَصَابَ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۝ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمُبْلِسِيْنَ۝ فَانْظُرْ اِلٰٓى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰهِ كَيْفَ يُـحْىِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتٰى ۚ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝

” اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں پھر وہ اُنھیں آسمان میں پھیلا دیتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے (کرکےتَہ بہ تَہ) کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بارش اس کے درمیان سے نکلتی ہےپھر جب وہ (اللہ) اپنے بندوں میں سے جن پر چاہے بارش برسا تا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ وہ اس (بارش) کے برسنے سے پہلے یقیناً مایوس ہوچکے تھے۔ تو آپ اللہ کی رحمت کے اثرات کی طرف دیکھیے کہ وہ زمین کو مُردہ ہونے کے بعد کیسے زندہ فرماتا ہے یقیناً وہی مُردوں کو زندہ فرمانے والا ہے اور وہ ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔
(سورۃ الروم: 48)

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ جس طرح مردہ زمین بارش سے زندہ ہو جاتی ہے، اسی طرح انسان بھی قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مٹی میں زندگی کا راز رکھا اور یہ اس کی قدرت کی دلیل ہے کہ وہ دوبارہ بھی اسی طرح زندہ کرے گا۔

قوموں کی مثالوں میں بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ جب انسان ایمان سے دور ہو جاتا ہے تو دل و دماغ بنجر ہو جاتے ہیں، لیکن اللہ کا کلام ایسے دلوں پر بارش کی طرح برستا ہے اور وہ دوبارہ زندگی پاتے ہیں، جیسے زمین سبز ہو جاتی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے بھی قرآن کو بارش سے تشبیہ دی، فرمایا
مثال اس ہدایت اور علم کی جس کے ساتھ مجھے اللہ نے بھیجا ہے، اس زمین کی سی ہے جس پر بارش ہوئی۔ اس زمین کا ایک حصہ زرخیز تھا، اس نے پانی کو جذب کر لیا اور اس سے گھاس اور بہت سا سبزہ اگ آیا۔ ایک حصہ سخت تھا، اس نے پانی کو روک لیا، لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے، پیتے، سیراب ہوتے اور کھیتی کرتے اور ایک حصہ ایسا تھا جو بالکل چٹیل اور بنجر تھا، نہ اس نے پانی روکا اور نہ ہی کچھ اگایا۔
یہ مثال اس شخص کی ہے جو دین میں فقیہ بنا، اور اللہ نے اسے میرے ذریعے فائدہ دیا اور اس کی بھی جو سر نہیں اٹھاتا، اور اللہ کی بھیجی ہدایت کو قبول نہیں کرتا۔
(صحیح بخاری، حدیث: 79)

آج بھی یہ مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ایمان کو تازہ رکھنے کے لیے اللہ کے کلام، ذکر اور نیک صحبت کی ضرورت ہے۔ دل اگر سخت ہو جائیں تو قرآن کی بارش سے انہیں نرم کرنا چاہیے، کیونکہ ایمان کی زندگی اسی بارش سے پھلتی پھولتی ہے۔

یقین، توحید اور آخرت کا عقیدہ صرف فلسفے سے نہیں، بلکہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر مضبوط ہوتا ہے۔ زمین، بارش، ہوا اور زندگی کا ہر پہلو توحید اور قیامت کی دلیل ہے، اور مومن ان نشانیوں میں غور کر کے ایمان کو تازہ کرتا ہے۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔