قرآن مجید کی روشنی میں شرک (اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا) انسان کا سب سے بڑا گناہ اور سب سے پہلی گمراہی ہے، جس کے خلاف تمام انبیاء نے بھرپور جدوجہد کی۔ شرک کو قرآن نے ناقابلِ معافی (اگر توبہ نہ کی جائے) اور تباہ کن جرم قرار دیا ہے۔ انبیاء کی دعوت کا مرکز ہمیشہ توحید رہا، اور انہوں نے سب سے زیادہ زور اسی شرک کی نفی پر دیا جس سے عقیدہ، عبادت، اور قانون سازی میں اللہ کی ذات کو چیلنج کیا جاتا ہے۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّـٰغُوتَ
اور یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ ’اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔‘
(النحل 36)
:شرک کی اقسام
شرک فی العقیدہ (عقیدے میں شرک)
اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود، مشکل کشا، یا فریاد رس سمجھنا۔ جیسے بتوں، اولیاء، پیروں یا ستاروں کو الوہیت دینا۔
شرک فی العبادہ (عبادت میں شرک)
کسی اور کے لیے سجدہ کرنا، نذر دینا، یا دعا مانگنا۔ قرآن میں مشرکین مکہ یہی کرتے تھے۔
شرک فی الطاعت (اطاعت میں شرک)
اللہ کے قانون کو چھوڑ کر انسانوں کے خود ساختہ قوانین یا نظام کو ماننا۔
إتَّخَذُوٓا۟ أَحْبَـٰرَهُمْ وَرُهْبَـٰنَهُمْ أَرْبَابًۭا مِّن دُونِ ٱللَّهِ
انہوں نے اپنے عالموں اور راہبوں کو اللہ کو چھوڑ کر رب بنا لیا۔
(التوبہ 31)
شرک فی الصفات (صفات میں شرک)
اللہ کی خاص صفات جیسے علمِ غیب، اختیار، ربوبیت کسی اور کو دینا۔
شرکِ خفی (چھپا ہوا شرک)
ریاکاری، خودنمائی یا دل میں غیراللہ کے لیے امید یا خوف رکھنا۔
:انبیاء کی دعوت کا مرکز
تمام انبیاء علیہم السلام نے عقیدے کے شرک پر سب سے زیادہ زور دیا۔ انہوں نے اپنی قوموں کو بتایا کہ عبادت، دعا، خوف، اور امید صرف اللہ سے وابستہ ہونی چاہیے۔ ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو بتایا کہ سورج، چاند، اور ستارے رب نہیں ہو سکتے۔ نوح علیہ السلام نے کہا کہ اپنے معبودوں کو چھوڑ دو۔ اور خاتم النبیین ﷺ نے مکہ کے بت پرست معاشرے میں توحید کی بنیاد پر انقلاب برپا کیا۔
شرک کی متعدد اقسام ہیں، مگر انبیاء نے سب سے زیادہ زور توحیدِ خالص پر دیا اور عقیدہ کے شرک کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی۔ کیونکہ جب عقیدہ پاک ہوتا ہے، تو عمل، اخلاق اور معاشرہ بھی درست ہوتا ہے۔ اور جب شرک ہوتا ہے، تو سارا نظام فاسد ہو جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن بار بار توحید پر زور دیتا ہے اور شرک سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔