|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  یونس مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 11گیارہویں نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے52 باون نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 123آیات ہیں جو 10 رکوع پر مشتمل ہیں ۔اس سورة کا نام حسب دستور محض علامت کے طور پر آیت 50 سے لیا گیا ہے جس میں ھود (علیہ السلام) کا ذکر آیا ہے وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ۔اس سورۃ کا موضوع بھی دعوت الی اللہ و تنبیہ ہے، اگرچہ اس میں انداز تبلیغ زیادہ سخت ہے۔سورۃ کی ابتداء اللہ نے حروف مقطعات سے کی ہے جسکا معنی و مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اس سورت میں بھی ان قوموں  نابود ہوگئیں۔کا تذکرہ ہے جو آیات الہی اور پیغمبروں کی تکذیب کر کے عذاب الہی کا نشانہ بن گئیں اور نیست ونابود ہوگئیں۔

: سورة ہود کا سورۃ یونس سے ربط

 سورة یونس میں جس طرح مسئلہ توحید کو بیان کیا گیا ہے اور شرک اعتقادی (شرک فی التصرف، شرک فی العلم) اور شرک فعلی کا جس انداز سے رد کیا گیا ہے جب تم اس کو اسی انداز سے بیان کرو گے تو تم مشرکین کی طرف طعن و ملامت کا نشانہ بنو گے جس طرح ہود (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے مسئلہ توحید بیان کرنے پر طرح طرح کے طعنے دئیے جیسا کہ اسی سورت کے چوتھے رکوع میں ہے۔  قَالُوْا یٰھُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ الخ  اور  اِنْ نَّقُوْلُ اِلّا اعْتَرٰکَ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بِسُوْءٍ سورة یونس کے آخر میں فرمایا  اِتَّبِعْ مَا یُوْحیٰ اِلَیْکَ  اب سورة ہود کی ابتداء میں فرمایا  کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ  یعنی وہ مَا یُوْحٰی یہ کتاب محکم ہے اسی کی پیروی کرو۔

 سورة یونس میں دلائل عقلیہ سے ثابت کردیا گیا کہ اللہ کے یہاں کوئی شفیع غالب نہیں اور اب سورة ہود میں کہا جائے گا جب اللہ کے یہاں کوئی شفیع غالب نہیں تو حاجات میں مافوق الاسباب صرف اللہ ہی کو پکارو کیونکہ اس کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں۔ غیر اللہ کی پکار کا مسئلہ اگرچہ سورة یونس میں بھی ہے مگر اس میں زیادہ زور دلائل پر ہے اور سورة ہود میں زیادہ زور غیر اللہ کی پکار سے ممانعت پر ہے اس طرح پکار کی نفی سورة ہود کا موضوع ہے۔

 سورة یونس میں دعوی توحید پر صرف عقلی دلائل پیش کیے گئے اب سورة ہود میں دلائل نقلیہ ذکر کیے جائیں گے۔ جب اس سورت میں دعوائے توحید دلائل عقلیہ و نقلیہ سے مدلل ہوجائے گا تو کہا جائے گا کہ دعوی تو بالکل واضح اور ثابت ہے لیکن مشرک ضد وعناد کی وجہ سے نہیں مانتے۔

 :سورت کی ابتداء میں چار دعوے مذکور ہیں

 پہلا دعوی : (صرف اللہ ہی کو پکارو )

 اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللّٰهَ  خالصۃً صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارو اور اسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔  اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ  دعوائے نبوت ہے یہ جملہ معترضہ ہے۔ یعنی میں اسی مسئلہ   اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللّٰهَ  کے لیے نذیر و بشیر بن کر آیا ہوں۔  یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا ۔۔الخ  بشارت دنیوی واخروی ہے۔  وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْ اَخَافُ  تا وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ  تخویف اخروی ہے۔

 دوسرا دعویٰ : (اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں)

 اَلا اِنَّھُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ  تا  کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْن ۔ اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے ساری کائنات کے ذرے ذرے کو جانتا ہے اور زمین و آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں۔  وَھُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ۔۔ الخ  جب ساری کائنات کا خالق ومالک ہی وہی تو پھر اس سے کیا چیز مخفی ہوگی ؟  لَیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا  اور  لَیَقُوْلَنَّ مَایَحبِسُهٗ  شکوے ہیں۔  اَلَا یَوْمَ یَاتِیْھِمْ ۔۔الخ  جواب شکویٰ ہے۔  وَلَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنسَانَ  تا  اِنَّهٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ  زجر ہے۔  اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا۔ الخ  بشارت اخروی ہے۔

 تیسرا دعویٰ :  مَا یُوْحٰی  کی تبلیغ میں کوتاہی نہ ہونے پائے

 فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعْضَ مَا یُوْحٰی تا وَ اللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ  (رکوع 2) جب آپ مسئلہ توحید کھول کر بیان کریں گے تو مشرکین کی طرف سے آپ پر تکلیفیں آئیں گی اور طعنے اور اعتراضات کی بھر مار ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مشرکین کی باتیں سن کر آپ دل برداشتہ ہوجائیں اور مسئلہ توحید کے کسی پہلو یا کسی حصے کی تبلیغ نہ کریں۔ مشرکین اپنے خبث باطن کا اپنی زبانوں سے اظہار کرتے رہیں گے آپ ان کی پرواہ نہ کریں اور پوری استقامت اور جرات کے ساتھ مسئلہ توحید کی کماحقہ تبلیغ فرماتے رہیں۔ اگر مشرکین نہیں مانتے اور ضد وعناد سے انکار ہی کرتے ہیں تو آپ غم نہ کریں آپ کا کام صرف تبلیغ ہے آپ وہ کرتے رہیں منوانا آپ کے فرائض میں شامل نہیں۔  اَمْ یَقُوْلُوْنَ افتَرٰہُ  (رکوع 2)۔ یہ شکویٰ ہے اور  قُلْ فَاتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ الخ  جواب شکویٰ ہے۔ اگر بقول منکرین یہ قرآن آپ کا خود ساختہ ہے تو انہیں چیلنج کردیں کہ اگر میں ایسا قرآن بنا سکتا ہوں تو تم بھی اہل لسان ہو اپنی پوری طاقت اور اپنے تمام ذرائع و وسائل بروئے کار لا کر اس قرآن جیسی دس سورتیں بنا کرلے آؤ اور اپنے دعوے کی صداقت ثابت کرو۔  فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیبُوْا لَکُمْ الخ  جواب شکویٰ  مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا  تا  وَ بَاطلٌ مّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ  (رکوع 2) جودنیا کی کھیتی چاہے گا ہم اسےدنیا ہی میں دےدیں گے مگراسکا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگایہ زجر مع تخویف اخروی۔

 چوتھا دعویٰ : مسئلہ بالکل واضح ہے،مخالفین بوجہ عناد نہیں مانتے۔

 اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ یَتْلُوْھُ  تا  وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُوْمِنُوْنَ  (رکوع 2)۔ مسئلہ توحید بالکل واضح تھا عقل سلیم رکھنے والوں کے لیے اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہ تھی کیونکہ عقلی دلائل اس کی تائید میں ہیں۔ اللہ کی کتاب قرآن اس کے حق میں بیان دے رہی ہے اور اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب تورات جو تمام انبیاء بنی اسرائیل کے لیے دستور العمل تھی اس میں بھی یہ مسئلہ واضح اور روشن کیا گیا ہے لہٰذا مسئلہ توحید سراپا حق ہے مگر اس کے باوجود اکثر لوگ محض ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس کو نہیں مانتے۔

 وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّمِ افْتَريٰ  تا  فِیْ الْاٰخِرَةِ ھُمُ الْاَخْسَرُوْنَ  زجر ہے اور منکرین مخالفین کے لیے سخت وعید اور شدید تخویف اخروی ہے۔  اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ الخ ۔ عاجزی کرنے والوں اور رغبت کے سا تھے ماننے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ اس کے بعد انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے سات قصے مذکور ہیں جو پہلے تین دعو وں کے متعلق ہیں۔ اور ان کے بعد ایک آیت چوتھے دعوے سے متعلق ہے۔

 پہلا قصّہ(نوح ؑ):  وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلیٰ قَوْمِهٖ  (رکوع 3) تا  ثُمَّ یَمَسُّھُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ یہ نوح (علیہ السلام) کا قصہ ہے جو پہلے دعوے سے متعلق ہے یعنی تمہارا کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہے اس لیے صرف اسی کو پکارو۔  اَلّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللّٰهَ ۔ قصے کے ضمن میں اور بہت سی باتیں مذکور ہیں۔ نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ، قوم کے طعنے و اعتراضات،  مَانَرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا۔۔ الخ  نوح (علیہ السلام) کی طرف سے طعنے کا معقول جواب۔  یٰقَوْمِ اَرَاَیْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ الخ  اور کچھ ضمنی سوالات کے جوابات۔  وَلَا اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِيْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ  (رکوع 3) شکوی و جواب شکوی بطور جملہ معترضہ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ پھر وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا (رکوع 4) سے تا آخر قصہ نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے اور ایمان والوں کو کشتی میں سوار کرنے کا حکم دینے، مشرکین کو نوح کے بیٹےکےساتھ غرق آب کرنے اور کشتی نوح کو صحیح سلامت جودی پہاڑ پر لگانے اور پھر نوح (علیہ السلام) کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے بیٹے کے بارے میں عذاب سے بچانے کاسوال کیا جسے اللہ نے مع زجرردّ فرمادیا۔ قصہ کے آخر میں بطور جملہ معترضہ تِلْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْھَا اِلَیْکَ ۔۔الخ (رکوع 4) سے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر دلیل پیش کی گئی۔

 دوسرا قصہ (ھود ؑ): وَاِلیٰ عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا (رکوع 5) تا اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ ھُوْدٍ (رکوع 5) ۔ یہ ہود (علیہ السلام) کا واقعہ ہے اور پہلے دعوے سے متعلق ہے انہوں نے اپنی قوم کو جو پیغام دیا تھا وہ یہ ہے یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَالَکمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہُ۔۔ الخ اور یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْهِ (رکوع 5)۔ اے میری قوم ! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور صرف اسی کو پکارو کیونکہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی کارساز نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور شرک و کفر سے سچی توبہ کرو۔ قوم نے مختلف قسم کے طعنے دئیے، کبھی کہا یٰھُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ الخ  تم کوئی واضح دلیل نہیں لائےاور کبھی یوں کہا اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰکَ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بِسُوْءٍ ۔ ہمارے معبودوں نے تمہارا دماغ خراب کردیاہے۔آخر میں معاندین اور منکرین قوم ہود (علیہ السلام) کی تباہی و بربادی کا ذکر ہے۔

 تیسرا قصّہ(صالح ؑ):  وَ اِلیٰ ثمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا تا اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْد (رکوع 6)۔ صالح (علیہ السلام) کا واقعہ ہے اور پہلے دعوے سے متعلق ہے جیسا کہ فرمایا یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ ۔ فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْهِ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ  اے میری قوم !صرف ایک اللہ کو پکارو اس کے سوا تمہارا کوئی کارساز نہیں۔ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو اور گناہوں سے سچی توبہ کرو۔ میرا رب رگ حیات سے قریب تر اور پکاریں اور فریادیں سننے والا ہے۔ اس کے بعد صالح (علیہ السلام) اور قوم کے مابین کچھ سوال و جواب کا سلسلہ ہے اور آخر میں  زبردست معجزہ جواونٹنی کی شکل میں تھا اسکو قتل کر ڈالا جس کےبعدمکذبین قوم کا انجام بد مذکور ہے۔

 چوتھا قصّہ(ابراھیم ؑ): وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا اِبْرَاھِیْمَ بِالْبُشْريٰ تا اٰتِیْھِم عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ ۔ (رکوع 7) یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ ہے اور دوسرے دعوے سے متعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو انسانی شکلوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بیٹے کی خوشخبری دینے کیلئے بھیجا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو دیکھ کر انہیں آدمی سمجھا اور ان سے دعا سلام کے بعد فوراً ان کے کھانے کا انتظام کرنے کیلئے گھر تشریف لے گئے۔ بہت جلد کھانا تیار کرا کرلے آئے اب فرشتوں نے بتایا کہ وہ فرشتے ہیں اور اللہ کی طرف سے انہیں بیٹے کی خوشخبری دینے اور قوم لوط پر عذاب الٰہی لے کر آئے ہیں۔ اس واقعہ سے ابراہیم (علیہ السلام)، آپ کی زوجہ (سارہ) اور فرشتوں سے علم غیب کی نفی ہوتی ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) فرشتوں کو انسانی شکلوں میں دیکھ کر انہیں پہچان نہ سکے اور جب وہ مہمانوں (فرشتوں) کے لیے کھانا تیار کرانے کی غرض سے گھر گئے تو فرشتوں کو اس کا پتہ نہ چل سکا ورنہ وہ فوراً ان کو منع کر کے ان پر حقیقت حال واضح کردیتے۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) گھر پہنچے اوراپنی بیوی سارہ کو کھانا تیار کرنے کے بارے میں فرمایا تو انہوں نے بھی نہ بتایا کہ جن مہمانوں کے لیے آپ کھاناتیار کرا رہے ہیں وہ تو فرشتے ہیں اور کھانا نہیں کھائیں گے۔

 پانچواں قصّہ(لوط ؑ): وَ لَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْ ءَ بِھِمْ  تا  وَ مَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ ۔ (رکوع 7) ۔ یہ لوط (علیہ السلام) کا واقعہ ہے۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) سے رخصت ہو کر فرشتے نہایت خوبصورت نوجوانوں کی شکلوں میں لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو ان کی قوم چونکہ نہایت بد کردار تھی اور خلاف فطرت فعل اور عادت بد کی عادی تھی اس لیے وہ گھبرائے اور غم گین ہوئے کہ کہیں قوم کے غنڈے عناصر ان کے معزز مہمانوں کی بےعزتی کرنے پر نہ اتر آئیں اور انہیں مہمانوں کی وجہ سے رسوائی کا سامنا کرنا پڑے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ان مہمانوں کا پتہ چلا تو دوڑتے ہوئے آئے اور شرارت کا ارادہ کیا ادھر  لوط (علیہ السلام) انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں جب وہ قوم سے مایوس ہوگئے اور معاملہ ان کے اختیار سے باہر ہونے لگا تو اب فرشتوں نے حقیقت حال سے پردہ اٹھایا اور لوط (علیہ السلام) سے کہا آپ ہمارا غم نہ کریں ہم تو اللہ کے فرشتے ہیں یہ ہمارا اور آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہم ان پر عذاب لے کر آئے ہیں اور صبح تک ان کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔ لوط (علیہ السلام) فرشتوں کی باتیں سن کر مطمئن ہوگئے اور ان کی گھبراہٹ جاتی رہی۔ یہ واقعہ لوط (علیہ السلام) سے علم غیب کی نفی پر دلالت کرتا ہے۔ انہیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ان کے مہمان انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں اگر انہیں پہلے ہی سے معلوم ہوتا کہ وہ فرشتے ہیں تو انہیں گھبرانے اور غم کھانے کی کیا ضرورت تھی۔

 چھٹا قصّہ (شعیب ؑ): وَ اِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا تا اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثمَمُوْدُ (رکوع 8) ۔ یہ شعیب (علیہ السلام) کا واقعہ ہے اور پہلے دعوے سے متعلق ہے اپنی قوم سے ان کا خطاب اولیں یہی تھا۔ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ  اے میری قوم ! صرف اللہ کو پکارو اس کے سوا تمہارا کوئی کارساز نہیں۔ وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْهِ اور اپنے گناہوں کی اللہ سے معافی مانگو اور کفر و شرک اور لوگوں کی حق تلفی سے سچی توبہ کرو۔ مگر قوم ضد وعناد کی وجہ سے کفر و انکار پر ڈٹی رہی آخر عذاب الہیٰ سے ہلاک کردی گئی۔

 ساتواں قصّہ(موسی ؑ): وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ تا بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ (رکوع 9) ۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ ہے اور تیسرے دعوے سے متعلق ہے۔ جس طرح مسئلہ توحید کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) پر مصیبتیں اور تکلیفیں آئیں اسی طرح آپ پر بھی آئیں گی اس لیے گھبرائیں نہیں بلکہ ہمت اور استقامت سے اپنا فریضہ تبلیغ ادا کئے جائیں۔ اس کی تفصیل سورة اعراف میں گذر چکی ہے۔ اس کے بعد ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْقُرٰي ۔۔الخ سے تمام مذکورہ قصوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ان اقوام باغیہ کو ہم نے ہلاک کر کے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے کیے کی سزا دی گئی اور پھر جن معبودانِ باطلہ کی مدد پر ان کو بھروسہ تھا ان میں سے کوئی بھی ان کے کام نہ آیا۔

 وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ تا اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ (رکوع 9) مخالفین کے لیے تخویف اخروی ہے اور وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا۔۔ الخ ماننے والوں کیلئے بشارت اخروی ہے۔ فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّمَّا یَعْبُدُ ھٰؤُلآءِ یہ چوتھے دعوے سے متعلق ہے۔ شرک سراسر باطل اور توحید سراپا حق ہے اور یہ بات اس قدر روشن اور واضح ہے کہ اس میں شک وریب کی کوئی گنجائش نہیں۔ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْهِ (رکوع 10) یہ سوال مقدر(یعنی وہ سوال جویہاں درج نہیں ہے) کا جواب ہے، سوال یہ تھا کہ اگر قرآن اللہ کی کتاب ہوتی تو سب لوگ اسے مان لیتے اور کوئی بھی اس سے اختلاف نہ کرتا جواب دیا گیا کہ کتاب کے بارے میں لوگوں کا اختلاف اس کے باطل ہونے کی دلیل نہیں۔ کیا موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم جو کتاب (تورات) دی تھی اس میں اختلاف نہیں کیا گیا۔

 وَلَوْ لَا کَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ یہ بھی سوال مقدر کا جواب ہے۔ مشرکین کہتے اگر ہم نہیں مانتے اور کتاب میں اختلاف کرتے ہیں تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا حالانکہ نہ ماننے پر ہمیں بار بار عذاب کی دھمکیاں سنائی جاتی ہیں۔ جواب دیا گیا کہ عذاب کے لیے اللہ کے نزدیک ایک وقت مقرر ہے اس لیے وہ اپنے وقت پر آئے گا اور ضرور آئے گا۔ اگر عذاب کے لیے وقت مقرر نہ ہوتا تو یہ کب کے ہلاک کیے جا چکے ہوتے۔

 وَ اِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَھُمْ۔۔ الخ تخویف اخروی ہے۔ چاروں دعوے اور ان سے متعلقہ سات قصے بیان ہوچکے اور سوال و جواب اور تخویف وغیرہ کا ذکر ہوچکا تو اب سورت کے تمام مضامین کے بعد ان پر پانچ امور کا ذکر کیا گیا۔ (1) فَاْسْتَقِمْ ۔ یعنی اپنے مسئلہ پر قائم رہو۔ (2) وَ لَا تَطْغَوْا۔ اس سے سرتابی نہ کرو۔ (3) وَ لَا تَرْکَنُوْا۔ اور مشرکین کی طرفداری نہ کرو۔ (4) وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ۔۔ الخ۔ امر مصلح۔ صلوۃ  پنجگانہ قائم کرو۔ (5) وَاصْبِرُوْا۔ اور مصائب و مشکلات کا صبر و استقلال سے مقابلہ کرو۔ وَ مَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی۔۔ الخ تخویف دنیوی ہے۔ وُ قُلِ لِّلَّذِیْنَ لَایُوْمِنُوْنَ الخ زجر مع تخویف دنیوی۔ آخر میں بطور لف و نشر غیر مرتب سورت کے چاروں دعو وں کا بالاختصار اعادہ ہے۔ وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔۔ الخ میں دوسرے دعوے کا اعادہ ہے، فَاعْبُدْہُ میں پہلے دعوے کا، وَ تَوَکَّلْ عَلَیْهِ میں تیسرے دعوے کا اور وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ میں چوتھے دعوے کا اعادہ ہے۔

 :مختصر ترین خلاصہ

اللہ کے سوا نہ کسی کو پکارو،اسکے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں،کوئی عالم الغیب نہیں،کوئی شفیع غالب و کارسازنہیں ہیں،حتی کہ مذکورہ جلیل القدر بیغمبر بھی نہیں۔اپنے مالک کو پہچان لو،تم سے پہلے جن قوموں نے انکار اور جھگڑا کیا ان قوموں کا حال دیکھ لو ہم نے انکے ساتھ کیا کیا۔لہذا تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ  (اے میری قوم ! پکارصرف اللہ کی کرو، نہیں ہے تمہارا کوئی معبود اس کے سوا۔)  اور وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ  (اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں ورنہ تم بھی آگ کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور کوئی تمہارا مددگار نہیں ہو گا اللہ کےسواپھر کہیں سے مدد نہ پاؤ گے ) اس دعوت کو معمولی نہ سمجھو اسی پر آخرت کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار ہے۔