|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  محمدﷺ

سورۃ  محمدﷺ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 47 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے94نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 38آیات ہیں جو4 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام آیت نمبر 2 وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ  سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم گرامی آیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک اور مشہور نام  قتال  بھی ہے جو آیت 20  وَّذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُ  سے ماخوذ ہے۔ سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں قتال کا حکم ہے کہ مرد بنو اور جہاد کرو اور سورة فتح میں فتوحات کا وعدہ ہے اور سورة حجرات میں نظم و نسق کے قواعد و ضوابط اور اصول وآداب ذکر کیے گئے ہیں یعنی اگر جہاد کرو گے تو اللہ تمہیں فتوحات عطا فرمائے گا اور جب فتوحات ہوجائیں تو ان قواعد و ضوابط کے مطابق نظام چلاؤ۔

 :سورة محمد ﷺ کا سورۃ الاحقاف سے ربط

 سورة احقاف میں واضح کردیا گیا کہ مشرکین جن مزعومہ شفعاء کو پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کے مالک نہیں نہ متصرف ومختار ہیں، نہ ان کی دعاء پکار ہی سنتے ہیں۔ اب سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں فرمایا، مرد بنو اور مسئلہ توحید کی خاطر جہاد کرو۔

 :مضمون کے اعتبار سے اس سورۃ کےدو حصے ہیں

 پہلا حصہ ابتداء سے لے کر  واللہ یعلم متقلبکم و مثواکم  (رکوع 2) تک ہے اور دوسرا حصہ  ویقول الذین امنوا  ٠ رکوع 3) سے لے کر آخر سورت تک ہے۔ پہلے حصے میں مومنین اور مشرکین کی صفات کا مقابلہ اور دونوں کی جزا مذکور ہے نیز حکم جہاد و ترغیب الی الجہاد کی علتیں اور وہ مقصد یعنی مسئلہ توحید جس کی خاطر جہاد فرض ہے۔ دوسرے حصے میں منافقین پر زجریں ہوں گی جو نہ جہاد میں شریک ہونا چاہتے تھے اور نہ جہاد میں مال ہی خرچ کرنا چاہتے تھے۔ اور آخر میں احوال مشرکین کا بیان۔

حصہ اول: تقابل احوال مومنین و کفار و حکم قتال :  الذین کفروا۔۔الخ  بیان حال مشرکین۔  صدوا  لازم و متعدی دونوں طرح مستعمل ہے۔ خود اللہ کی راہ سے رک گئے اور اس پر نہ چلے یا دوسروں کو اللہ کی راہ پر چلنے سے روک دیا۔ اللہ کی راہ سے مراد اسلام ہے۔ والذین امنوا۔۔الخ مقابلے میں مومنین کے حال کا ذکر اور بشارت ہے۔ اور جو لوگ اللہ کی وحدانیت پر ایمان لائے اور نیک کام کیے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کچھ بھی نازل کیا گیا ہے (قرآن اور تمام دیگر احکام) سب پر ایمان لائے، ہر بات پر آپ کی تصدیق کی اور کسی چیز میں آپ کی مخالفت نہ کی۔ آپ پر جو کچھ بھی نازل کیا گیا ہے وہ سراپا حق ہے اور اللہ کی طرف سے ہے۔ ایسے لوگوں کے اللہ تعالیٰ گناہ معاف فرمائیگا اور دنیا وآخرت میں ان کے احوال و معاملات درست کرے گا۔ ذلک بان۔۔الخانہوں نے حق سے اعراض کر کے باطل کا اتباع کیا اور مومنوں کے گناہوں کا معاف ہونا اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے باطل سے منہ موڑ کر حق کو قبول کیا اور اس کی پیروی کی۔ حاصل یہ ہے کہ مشرکین کی نیکیاں حق سے اعراض اور شرک کی وجہ سے برباد ہیں اور مومنوں کی برائیاں ایمان اور اعمال صالحہ کی برکت سے معاف ہوں گی۔ فاذا لقیتم۔۔الخ  بیان احوال فریقین کے بعد جہاد کا حکم دیا گیا۔  سیہدیہم۔۔الخ  شہداء کے لیے بشارت اخرویہ۔ یا ایہا الذین۔۔الخ اے ایمان والو ! اگر تم مال و جان سے اللہ کے دین اور اللہ کے سول کی مدد کروگے، اور محض رضائے الٰہی اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جہاد کروگے، تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا دشمن کے مقابلے میں تمہیں ثبات و استقلال عطا فرمائیگا اور فتح و ظفر سے تمہیں ہمکنار فرمائے گا۔ والذین کفروا۔۔الخ  بیان حال کفار، مومنین کے مقابلے میں کفار کے لیے دنیا میں قتل وہلاکت اور آخرت میں رسوا کن عذاب ہے اور ان کے اعمال بیکار و رائیگاں ہیں۔  ذلک بانہم ۔۔الخ  یہ مشرکین کے انجام کا سبب ہے۔ ان کا یہ انجام اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے توحید اور دیگر احکام پر مشتمل اللہ کی کتاب کو نفرت و کراہیت کی نگاہوں سے دیکھا اس لیے ان کے تمام اعمال ضائع کردئیے اگر ان کے اعمال کے ساتھ ایمان کی دولت بھی ہوتی، تو ان پر اجر وثواب ملتا۔  افلم یسیروا۔۔الخ  احوال مشرکین و تخویف دنیوی ہے۔ یہ سرکش لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ رہے ہیں کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں تاکہ اپنے سے پہلے سرکش لوگوں کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ اللہ نے ان کو اور ان کے اہل و عیال اور اموال کو تباہ کردیا۔ ان کی سرکشوں کے لیے ایسے انجام بد کی بہت سی مثاللیں ہیں۔ گزشتہ اقوام کی ہلاکت و تباہی میں ان کے لیے بیشمار عبرتیں ہیں۔  ذلک  معاملہ اسی طرح ہے۔  بان اللہ الخ ترغیب الی الجہاد کی دوسری علت ہے یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں کا مددگار ہے اور کافروں کا کوئی یار و مددگار نہیں۔  ان اللہ۔۔الخ  بشارت اخرویہ مع بیان احوال مومنین۔ جو مومنین زیور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے ان کو اللہ تعالیٰ جنت کے ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن میں نہریں جاری ہوں گی

  والذین کفروا  تخویف اخروی مع بیان احوال مشرکین۔ کفار آخرت سے ایسے غافل ہیں کہ ہر وقت دنیوی منافع حاصل کرنے اور عیش اڑانے میں مشغول ہیں اور چوپایوں کی طرف فکر آخرت اور انجام و عاقبت سے بےخبر ہو کر کھانے پینے میں منہمک رہتے ہیں۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔  وکاین من قریۃ  یہ مشرکین کے لیے تخویف دنیوی ہے اور ضمناً  رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ قریۃ سے مجازاً اہل قریہ مراد ہیں۔ بہت سی بستیاں جن میں سے ہر بستی والے آپ کی اس بستی (مکہ) والوں سے زیادہ طاقتور تھے جنہوں نے آپ کو اس بستی سے نکالا ہے ہم نے ان کو ہلاک کردیا مگر ان کا کوئی یار و مددگار ان کی مدد کو نہ آیا۔ آپ گھبرائیں نہیں آخر کار ان سرکشوں کی بھی جڑ کاٹ دی جائیگی اور انجام کار غلبہ آپ ہی کو نصیب ہوگا۔  افمن کان ۔۔الخ بیان حال اہل ایمان و اہل طغیان۔ وہ مومن جس کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے ایک واضح بیان (قرآن) موجود ہے اور وہ اس کی روشنی میں چلتا اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے کیا وہ اس مشرک کے برابر ہوسکتا ہے جو کفر و شرک کو اچھا اور نیک کام سمجھتا ہو اور خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرتا ہو، توحید اور حق کو جھٹلاتا ہو۔ استفہام انکاری ہے یعنی یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔  مثل الجنۃ  بشارت اخرویہ اور نعیم جنت کی صفت کا بیان ہے۔  کمن ھو خالد ۔۔الخ  یہ حال کفار و تخویف اخروی۔ومنہم۔۔الخ زجر وبیان حال منافقین۔ منافقین بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عدم توجہ اور بےاعتنائی سے آپ کی باتیں سنتے اور جب آپ کی مجلس سے اٹھ کر آتے تو اہل علم صحابہ (رض) سے بطور استہزاء و تمسخر سوال کرتے کہ ابھی ابھی آپ نے کیا فرمایا ہے ؟ میں اچھی طرح سن نہیں سکا۔ فرمایا اصل بات یہ ہے کہ ہم نے ان کے تعنت وعناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر جباریت لگا دی ہے اور ان کو توفیق ہدایت سے محروم کردیا ہے، اس لیے وہ آپ کے کلام ہدایت کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور خواہشات نفسانیہ کے پیروکار بن چکے ہیں، اس لیے ہر بری بات اور ہر برے کام کی طرف فورًا متوجہ ہوجاتے ہیں۔ والذین اھتدوا  بیان حال مومنین۔ اور جو لوگ ہدایت قبول کرچکے ہیں جب وہ آپ کی خدمت میں حاجر ہو کر آپ سے کلام الٰہی اور آپ کا وعظ و نصیحت سنتے ہیں تو ان کی بصیرت اور ان کے علم و یقین کو تقویت ملتی ہے اور انہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطاء ہوتی ہے۔  فھل ینظرون  تخویف دنیوی۔ جو امور عبرت و نصیحت حاصل کرنے کا موجب تھے وہ تو سب سامنے آچکے مثلا قرآن، معجزات وغیرہ، لیکن ان منافقین اور مشرکین نے عبرت حاصل نہیں کی اور ہدایت کو قبول نہیں کیا اب صرف ایک چیز باقی رہ گئی ہے کہ اچانک قیامت آجائے مگر علامات تو قیامت کی بھی ظاہر ہوچکی ہیں مثلاً بعثت  خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)،لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ضد و حسد اور بغض وعناد کی وجہ سے ایمان نہ لانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ فاعلم انہ۔۔الخ  بنیادی دعوی اور مسئلہ توحید کا ذکر ہے جس کی خاطر جہاد فرض ہے یعنی اس بات کا دل سے یقین کر اور اس یقین پر قائم رہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود اور الٰہ نہیں۔ اس کے سوا کوئی مالک و مختار، عالم الغیب اور دعا پکار کے لائق نہیں۔  واستغفر لذنبک۔۔الخ  رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ معصوم ہیں اس لیے استغفار سے یہاں گناہوں سے معافی مانگنا مراد نہیں بلکہ اس سے تواضع، کسرِ نفس کا اظہار اور قصور کا اعتراف مراد ہے۔

حصہ دوم: منافقین کے احوال کا بیان ہے۔ ویقول الذین۔۔الخ ایمان والوں کی یہ خواہش اور آرزو تھی کہ قرآن میں جہاد کا حکم نازل ہوتا کہ وہ جہاد کر کے مشرکین سے انتقام لیں، اللہ کے دین کو سربلند کریں اور اجر وثواب حاصل کریں تو جب کوئی ایسی سورت نازل ہوتی جس میں واضح اور غیر مبہم الفاظ میں جہاد و قتال کا حکم ہوتا، تو منافقوں پر سکتہ طاری ہوجاتا اور وہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اس طرح دیکھتے جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہو اور اس کے اوسان خطا ہوچکے ہوں، کیونکہ بظاہر مسلمانوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ان کیلئے دو ہی راستے ہیں یا تو جہاد میں شریک ہو کر جن مشرکین کے ساتھ ان کی دلی ہمدردیاں ہیں، ان سے لڑیں یا پھر جہاد میں شریک نہ ہوں اور منافقت کا الزام لے کر ذلیل ورسوا ہوں۔  الذین امنوا  سے مخلص مومنین مراد ہیں اور  الذین فی قلوبہم مرض  سے منافقین مراد ہیں۔  طاعۃ  ان کے لیے بہتر اور اچھا تو یہی تھا کہ وہ مخلصین کی طرح اطاعت کو اپنا شعار بناتے اور دل سے سچی بات کہتے اور زبانوں سے جہاد کی سچی آرزو کا اظہار کرتے۔  فاذا عزم  یہ شرط ہے اور جملہ شرطیہ  فلو صدقوا۔۔ الخ  اس کی جزا ہے۔  صدقوا  سچ کہتے۔ یعنی جب معاملہ پختہ ہوگیا اور جہاد کا اعلان ہوگیا تھا تو اس وقت اگر یہ لوگ قول و فعل میں راستبازی اختیار کرتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔  فھل عسیتم  خطاب منافقین سے ہے۔ جب تم پر جہاد فرض کردیا گیا جو بیشمار دینی فوائد رکھتا ہے مثلاً اللہ کے دین کی سربلندی، باطل کی شکست اور ثواب آخرت وغیرہ مگر اس سے تم نے اعراض کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم محض دنیا پرست ہو تو کیا پھر تم سے یہی توقع کی جائے کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو تم زمین میں شر و فساد بپا کرو، رعایا کی حق تلفی کرو اور ان پر ظلم ڈھاؤ اور اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی پامال کرو۔  اولئک۔۔الخ  یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے اپنی رحمت سے دور کر کے ان کے دلوں پر مہر جباریت لگا کر انہیں ہدایت سے محروم کردیا ہے انہیں حق سننے سے بہرہ کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے وہ انفس وآفاق میں بیشمار دلائل توحید دیکھتے ہیں، لیکن ان میں اور ایک نابینا میں کوئی فرق نہیں جیسے نابینا راہ نہیں دیکھ سکتا اسی طرح وہ بھی راہ ہدایت نہیں دیکھتے۔  افلا یتدبرون  یہ منافقین پر زجر ہے کیا یہ لوگ قرآن کی آیات بینات میں غور و تدبر ہی نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہیں اور وہ ایسے بےشعور ہیں کہ ان میں تدبر و تفکیر کی صلاحیت ہی نہیں۔ اگر یہ لوگ حکم جہاد میں ذرا غور سے کام لیتے تو جہاد کے دینی اور دنیوی فوائد ان پر واضح ہوجاتے۔  ان الذین ارتدوا  منافقین اسلام کا اقرار کرنے کے بعد جہاد میں شرکت نہیں کرتے اور اپنے قول واقرار سے پھرے جاتے ہیں شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ جہاد میں جاؤ گے تو قتل ہوجاؤ گے اور ان کی امیدوں میں یہ کہہ کر اضافہ کیا کہ گھر میں رہو گے تو زیادہ عرصہ تک زندہ رہو گے اس لیے چھوڑو جہاد کو۔  ذلک بانھم  اور  الذین کرھوا۔۔ الخ  سے یہود اور مشرکین مراد ہیں۔ منافقوں نے جب ظاہری طور پر اسلام قبول کرلیا تو انہوں نے یہود اور مشرکین کو یقین دلایا کہ اگرچہ بظاہر ہم مسلمان ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ مل کر تم سے نہیں لڑیں گے بلکہ جب موقع پائیں گے تمہاری مدد کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی ان سرگوشیوں اور خفیہ سازوں کو خوب جانتا ہے۔  فکیف اذا  یہ تخویف دنیوی ہے جب فرشتے ان کی جانیں قبض کریں گے تو ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں کو خوب پیٹیں گے اور جس موت اور مار سے بھاگے تھے اس کا خوب مزہ چکھیں گے۔  ذلک بانھم۔الخ  مرتے وقت یہ ہولناک سزا انہیں اس لیے دی جائیگی کہ انہوں نے کفر و شرک اور عصیان و طغیان کی ر اہ اختیار کی جو سراسر اللہ کے غضب اور اس کی ناراضی کا باعث تھی اور اللہ کی خوشنودی ورضا جوئی کا راستہ ترک کیا اس لیے ان کے سب اعمال بیکار کردئیے گئے آخرت کی زندگی میں ان کو ان سے کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔  ام حسب۔۔الخ منافقین پر زجر ہے۔ ان کا یہ خیال غلط ہے کہ اسلام پیغمبر (علیہ السلام) اور مسلمانوں کے خلاف ان کے دلوں میں جو کینہ و عداوت پوشیدہ ہے اللہ اس کو ظاہر نہیں کرے گا اور ان کے مکر و فریب اور ان کی منافقت کا پردہ چاک نہیں کرے گا۔ ضرور کرے گا اور ایسے حالات پیدا فرمائے گا کہ ان کا خبث باطن خود کھل کر سامنے آجائے  ولو نشاء۔۔الخ اگر ہم چاہیں تو منافقین کو آپ کے سامنے کردیں اور آپ ان کو دیکھ کر ان کی صورتیں پہچان لیں کہ یہ منافق ہیں لیکن ابھی اس قسم کے دو ٹوک فیصلے کو ہماری حکمت مقتضی نہیں ویسے آپ ان کو ان کے انداز گفتگو سے پہچان لیں گے کیونکہ منافق خواہ کتنی ہی چاپلوسی کرے اور چکنی چپڑی باتیں کرے اس کے کلام میں وہ خلوص نہیں پیدا ہوسکتا جو ایک مخلص مومن کی سیدھی سادھی باتوں میں پایا جاسکتا ہے۔ ولنبلونکم۔۔الخ  ہم حکم جہاد سے تمہاری آزمائش کرنا چاہتے ہیں اور ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ کون تم میں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتے ہیں کہ کون تم میں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتا اور راہ حق میں مصائب برداشت کرنا چاہتا ہے اور کون ایسا نہیں کرنا چاہتا اس سے بھی مخلص و منافق میں امتیاز ہوجائے گا اور مخلص و منافق کے عمل سے اس کی اندرون دل کیفیت ظاہر ہوجائیگی۔  ان الذین کفروا  یہ آخر سورت میں پھر احوال مشرکین کا ذکر ہے۔ جو لوگ راہ ہدایت کے بالکل واضح اور روشن ہوجانے کے بعد بھی توحید کا انکار کرتے اور اسلام سے لوگوں کو روکتے ہیں اور پیغمبر  محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں حد سے گذر چکے ہیں اور آپ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں، وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے وہ سراسر اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسلام ،پیغمبر اسلام اور اہل ایمان کے خلاف ان کے تمام منصوبوں کو ناکام کر کے ان کی تمام آرزوؤں کو خاک میں ملا دے گا۔ یا ایہا الذین امنوا۔۔الخ  یہ تشجیع علی القتال ہے۔ امر جہاد میں اللہ اور رسول کے احکام کی پیروی کرو۔ جہاد میں اور راہ دین میں اپنی مرضی اور صوابدید پر نہ چلو، بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات پر چلو اور ان کے احکام کی اطاعت کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر کے اور اپنی مرضی سے کام کر کے اپنی محنت اور اپنے عمل کو برباد نہ کرو۔ ان الذین کفروا۔۔الخ  بیان حال مشرکین مع تخویف اخروی۔ جن لوگوں نے خود کفر و شرک اختیار کیا اور دوسروں کو اسلام سے روکا اور پھر اسی کفر و شرک کی حالت میں مرگئے تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہرگز معاف نہیں فرمائیگا اور وہ لامحالہ جہنم کے درائمی عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔  فلا تھنوا۔۔۔الخ  یہ ایمان والوں کو جہاد میں ثابت قدم رہنے کی ترغیب ہے۔ یعنی جہاد میں سستی اور بزدلی مت دکھاؤ اور دب کر صلح کا ہاتھ مشرکین کی طرف مت بڑھاؤ۔ جب تک تمہارا پلہ بھاری ہے ہمت نہ ہارو، اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے، وہ تمہاری محنت کو ضائع نہیں کرے گا، بلکہ تمہیں ثابت قدم فرما کر تمہیں فتح و غلبہ عطا کرے گا۔ لیکن اگر صورت حال ایسی پیش آجائے کہ مادی اعتبار سے مسلمان کفار کے مقابلے میں کمزور ہوں اور صلح میں اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ ہو تو صلح کرلینے میں مضائقہ نہیں۔  انما الحیوۃ الدنیا  اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔ یہ دنیا تو محض ایک کھیل تماشا ہے اور آخرت کے مقابلے میں کوئی چیز ہی نہیں اگر تم ایمان وتقوی اختیار کرو گے اور اس کھیل تماشے سے بچ کر رہو گے، تو اللہ تمہیں نہایت عمدہ اجر دے گا اور وہ تم سے سارا مال بھی طلب نہیں فرماتا۔ بلکہ سارے مال میں سے تھوڑا سا حصہ طلب کرتا ہے اور وہ بھی تمہارے ہی فائدے میں خرچ ہوتا ہے۔  ان یسئلکموھا الخ ۔یہ بھی اللہ کی مہربانی ہے کہ یہ سب کچھ اسی نے دیا ہے مگر پھر بھی سارا مال خرچ کرنے کا حکم نہیں فرماتا۔ اور اگر وہ تمہیں سارا مال خرچ کرنے کا حکم دے بھی دے، تو کوئی بھی اس پر عمل نہ کرے گا بلکہ بخل کر کے اپنی تنگدلی کا مظاہرہ کرے گا۔ الا ماشاء اللہ۔  ھا انتم۔۔الخ  زجر برائے منافقین۔ تمہیں جب اللہ کی راہ میں کرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو تم میں سے بعض بخل کرتے ہیں حالانکہ اپنے ہی فائدے کے کام میں خرچ کرنا ہے۔ اس لیے جو خرچ نہیں کرتا وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور خرچ نہ کر کے بہت سے دینی اور دنیوی فوائد سے محروم رہتا ہے۔ اور اللہ جو خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھو کہ وہ تمہارے مال کا محتاج ہے، وہ تو بےنیاز ہے اور تم سب محتاج اور ضرورتمند ہو اور وہ تمہاری حاجات و ضروریات ہی میں تمہیں خرچ نہ کرو، تو وہ تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو کھڑا کردے گا جو تمہاری طرح بخیل نہ ہوگی اور فراخدلی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے گی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ان مصالح کی تکمیل فرما لے گا، لیکن تم اس کار خیر میں حصہ لینے کی سعادت سے محروم ہوجاؤ گے۔

مختصر ترین خلاصہ

مومنوں اور کافروں کی صفات کا تقابل،،ترغیب الی الجہاد اور اس کی علتیں بیان ہوئیں اور جوہری مسئلہ جس کے لئے حکم جہاد نازل ہوا فاعلم انہ لا الہ الا اللہ۔ پس خوب جان لو کہ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے۔