|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ طہ

سورۃ  طہ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 20 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے45 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 135آیات ہیں جو8 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام پہلے ہی آیت طہ سے بطور علامت رکھا گیا ہے۔طہ حروف مقطعات میں سےہے جسکا معنی و مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا،اسکے متعلق یہ عقیدہ سراسر باطل ہے کہ ان سب حروف کو جمع کرکے دیوار پر لٹکانے سے خیر و برکت نازل ہوجاتی ہے اور صبح اٹھ کر دیکھنے سے ہر کام آسان ہو جاتا ہے۔وغیرہ وغیرہ اس امت میں گویا یہ کھلے تعویذ کی شکل اختیار کر گیا ہے،جبکہ احادیث صحیحہ میں ہر قسم کے تعویذ کو شرک قرار دیا گیا ہے۔(سنن ابوداؤد:جلد سوم:طب کا بیان:حدیث نمبر 493)۔اس سورۃ  کا اکثر و بیشتر حصے میں موسی علیہ سلام کا ذکر ہے۔ اس میں آپ کی ولادت پر تابوت میں ڈال کر دریا میں بہایا جانا، فرعون کا اسے پکڑنا، پھر آپکے ہاتھوں نادانی سے ایک بندہ قتل ہونا،پھر بڑے ہوکر آپ کو نبوت ملنا،اوراپنے بھائی سمیت فرعون کے پاس جانا اور اسے دعوتِ اسلام دینا، اس کا انکار کرنا، پھر جادوگروں کے ساتھ موسی کا مقابلہ، جس میں آپ کا کامیاب ہونا اور جادوگروں کا اسلام لانا ، پھر موسی علیہ السلام کا بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات مصر سے نکلنا فرعون کا پیچھا کرنا موسی علیہ السلام کابنی اسرائیل سمیت نجات پانا اور فرعون کا غرق آب ہونا پھر موسی علیہ السلام کو کتاب کا عطا ہونا وغیرہ۔  آخر میں وہ واقعہ بھی لایا گیا جب فرشتوں کو سجود آدم کا حکم ہوا میں تو سب نے سجدہ کیا اور شیطان نےتکبر کیا۔

 سورة طہٰ کا سورۃ مریم سے ربط

سورة مریم میں مذکورہ انبیاءکے احوال سے معلوم ہوگیا کہ وہ متصرف و کار ساز نہ تھے۔اب سورة طہ میں کہا گیا  اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ  یعنی اے موسیٰ (علیہ السلام) میں ہی سب کا کارساز ہوں لہٰذا مجھے ہی پکارو

مسئلہ توحید کے بارے میں جس قدر شبہات تھے۔ سورة کہف اور سورة مریم میں ان کا جواب دے دیے دیا گیا اس کے بعد سورة طہ میں کہا گیا کہ اب مسئلہ توحید کی خوب خوب تبلیغ کرو اور اس سلسلے میں جس قدر مصائب آئیں ان کو مردانہ وار برداشت کرو۔ جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے توحید کی خاطر فرعون اور اس کی قوم کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھائیں اور مصیبتیں برداشت کیں۔

سورة طہ میں دو مضمون مذکور ہیں۔ اول توحید/ دوم تشجیع(جرأت و بہادری دلانا)

 مسئلہ توحید : اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب اور متصرف و کارساز ہے لہٰذا حاجات میں غائبانہ صرف اسی کو پکارو۔ آیات توحید پانچ ہیں۔

 تَنْزِیْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ  تا  لَهُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنیٰ  (رکوع 1) ۔ توحید کی خاطر اگر کوئی تکلیف آجائے تو کیا ہوا یہ حکم نامہ اس بادشاہ کا ہے جو ساری کائنات کا خالق ومالک اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

 اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰهُ لا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلوة لِذِکْرِيْ  اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو کیونکہ متصرف و مختار اور عالم الغیب وہی ہے۔

 قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْ الَّذيْ اَعْطیٰ کُلَّ شَیْءٍ  تا  اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰی  (رکوع 2) ۔ پیدا کرنا اور مخلوق کو روزی دینا اسی کا کام ہے لہٰذا کارساز بھی وہی ہے۔

 اَفَلَا یَرْجِعُ اِلَیْھِمْ قَوْلًا وَّ لَا یَمْلِکُ لَھُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا  (رکوع 4) یہ گو سالہ نفع نقصان کا مالک نہیں اور الہٰ وہی ہوسکتا ہے جو متصرف اور نافع و ضار ہو۔

 اِنَّمَا اِلٰھُکُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۔ وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عَلْمًا  (رکوع 5) ۔ متصرف و مختار اور عالم الغیب وہی ہے لہٰذا کارساز بھی وہی ہے۔

 اس کے بعد  فَتَعٰلَی اللّٰهُ الْمَلِکُ الْحَقُّ  (رکوع 6) میں آیات توحید کا ثمرہ ذکر کیا گیا ہے کہ مذکورہ بیان سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ہی عظیم الشان اور عالی مرتبہ بادشاہ ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں، وہی سب کا کارساز اور حاجت روا ہے۔

 آیات تشجیع : آیات تشجیع بھی پانچ ہیں جن کا مقصد جرات دلانا اور شجاعت اور بہادری سے مسئلہ توحید کی تبلیغ کرنے کی ترغیب وتعلیم دینا ہے۔

مَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لتَشْقیٰ  (رکوع 1) ۔ یہ قرآن آپ پر اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑیں یہ تو ڈرنے والوں کے لیے نصیحت تذکرہ ہے۔ لیکن توحید کی و جہ سے اگر کوئی تکلیف آجائے تو صبر کرنا۔

وَ ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی  تا  فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰی ۔ دیکھو موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی توحید کی خاطر کسی قدر مصائب برداشت کیے آپ بھی اعلاء کلمۃ اللہ میں ہر مصیبت پر صبر کریں۔

 کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیْکَ  تا  اَتَیْنٰکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا  (رکوع 5) ۔ یعنی ہم پہلے انبیاء (علیہم السلام) کے قصے اسی لیے بیان کرتے ہیں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ تبلیغ احکام الٰہی کی خاطر انہوں نے کس قدر تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھائیں۔

 وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ  تا  وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا  (رکوع 6) ۔ وحی کو یاد کرنے میں آپ جلدی نہ کریں ہم آپ کو یاد کرادیں گے۔ نیز خیال رہے آدم (علیہ السلام) کی طرح آپ کے عزم میں کمزوری نہ آنے پائے۔

 فَاصْبِرْ عَلیٰ مَا یَقُوْلُوْنَ  تا  لَعَلَّکَ تَرْضٰی  (رکوع 8) ۔ کوئی بھی مصیبت آجائے اس پر صبر اور اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے رہیں اللہ تعالیٰ آپ کو اس صبر پر اس قدر اجر عطا کرے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔

 اس سلسلے میں دو قصے بھی ذکر کیے گئے ہیں ایک موسیٰ (علیہ السلام) کا دوسرا آدم(علیہ السلام) کا۔ پہلا قصہ تفصیل کے ساتھ اور دوسرا اختصار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ موسیٰ علیہ کی طرح جرات، بہادری اور عزم و استقلال کے ساتھ مسئلہ توحید کی تبلیغ کرو۔ اور آدم (علیہ السلام) کی مانند تمہارے عزم میں کسی قسم کی کمزوری نہ آنے پائے۔اور ان پر یہ بات خوب واضح کردو کہ جو منہ موڑے گا میری کتاب ہدایت سے تو یقیناً ہوگی اس کے لیے تنگ و ترش زندگی اور ہم اسے روز قیامت اندھا اٹھائیں گے ،وہ کہے گا اے میرے مالک ! کیوں اٹھایا ہے تو نے مجھے اندھا جبکہ میں آنکھوں والاتھا اللہ فرمائے گا ایسے ہی جیسے آئی تھیں تمہارے پاس ہماری نشانیاں(آیات) سو بھلا دیا تھا تو نے انہیں اور اسی طرح آج بھلا دیا جائے گا تجھے۔اور ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ہم ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جاتا ہے اور نہیں ایمان لاتا اپنے رب کی آیات پر۔ اور یقیناً عذاب آخرت ہے زیادہ سخت اور زیادہ دیر رہنے والا۔ آخر میں فرمایا  وَ لَا تَمُدَّنَّ عَینیْکَ اِلیٰ مَا مَتَّعْنَا بِهٖ  یعنی مشرکین کے کثرت و دولت اور مال و متاع کی پروا نہ کرتے ہوئے مسئلہ توحید کی تبلیغ کیے جاؤ۔ پھر  وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوةِ واصْطَبِرْ عَلَیْھَا  سے امر مصلح صلوۃ کا ذکر کیا گیا۔

مختصر ترین خلاصہ

مسئلہ توحید پر شبہات کا ازالہ کردیا گیا اللہ کے سوا کوئی بھی کارساز و عالم الغیب نہیں ہے،آل فرعون کاحال دیکھ لو ہم نے انہیں نیست و نابود کر دیا،مسئلہ توحید روز روشن کی طرح واضح ہے ،اب ہمت و جراءت کے ساتھ اسکی دعوت و تبلیغ کرو۔مصائب اورپریشانی پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرو۔