سورۃ النمل مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 27 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے48 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 93آیات ہیں جو7 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کی ابتداء حروف مقطعات سے ہوئی ہے جسکا معنی و مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس سورۃ کے دوسرے رکوع کی چوتھی آیت میں النَّملِ (چونٹی) کا ذکر آیا ہے۔ سورةکا نام اسی سے ماخوذ ہے۔یعنی وہ سورة جس میں النمل کا ذکر آیا ہے،یا جس میں النمل کا لفظ وارد ہوا ہے۔اس سورۃ کے میں موسیؑ کی نبوت کا ذکر ہے پھر داؤد اور سلیمان علیہ السلام کا ذکر اور چیونٹی کا واقعہ ہے پھرملکہ بلقیس کے تخت کوحاضر کرنے کا واقعہ مذکور ہے ۔ مختلف انبیاء کی تبلیغی کوششوں کا اجمالی بیان ہے اور آخرمیں توحید و رسالت حقانیت قرآن اور اثبات قیامت کا بیان ہے۔
:سورة النمل کا ماقبل سے ربط
سورة فرقان میں فرمایا یہ دعوی توحید حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے پھر سورة شعراء میں فرمایا یہ شاعری نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اب سورة نمل میں بیان ہوگا کہ اس بارے میں نمل (چیونٹی) کا بیان بھی سن لو۔ یا ایہا النمل ادخلوا مساکنکم لا یحطمنکم سلیمن و جنودہ وھم لا یشعرون اے چیونٹیو ! اپنی بلوں میں گھس جاؤ کہیں سلیمان اور ان کے لشکری تمہیں لا علمی سے روند نہ ڈالیں۔ کیونکہ سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب جو اولیاء اللہ تھے عالم الغیب نہ تھے۔ وھم لا یشعرون کی قید سے معلوم ہوا کہ چیونٹی کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب عالم الغیب نہیں۔
سورة الفرقان میں دعوی تبارک پر زیادہ تر عقلی دلائل ذکر کیے گئے اور سورة الشعراء میں زیادہ تر نقلی دلائل مذکور ہوئے اب سورة نمل میں چار واقعات کے ضمن میں دعوی مذکورہ کی دو علتیں بیان کی جائیں گی یعنی عالم الغیب ہونا اور کارساز اور متصرف و مختار ہونا۔ چونکہ عالم الغیب اور کارساز اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں اس لیے برکات دہندہ بھی وہی ہے۔
تلک ایت القران تا وبشری للمومنین تمہید مع ترغیب۔ الذین یقیمون الصلوۃ۔۔ الخ بشارت۔ ان الذین لا یومنون تا ھم الاخسرون تخویف اخروی۔ وانک لتلقی القران۔۔ الخ ترغیب الی القران مع تسلی۔ اذ قال موسیٰ لاھلہ تا فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین ۔ یہ پہلا واقعہ ہے اور اس کے ضمن میں دعوی تبارک کی پہلی علت کا بیان مقصود ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے اس واقعہ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیب داں نہ تھے۔ ولقد اتینا داؤد و سلیمن علما (رکوع 2) تا واسلمت مع سلیمن للہ رب العلمین ۔ یہ دوسرا واقعہ ہے اور اس کے ضمن میں بھی پہلی علت ہی کا ذکر ہے۔ ہد ہد کے غائب ہونے کی وجہ، ملکہ سبا اور اس کی قوم کے حالات کا سلیمان (علیہ السلام) کو علم نہ تھا تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ غیب داں نہ تھے، عالم الغیب صرف اللہ ہی ہے اس لیے برکات دہندہ بھی وہی ہے۔
ولقد ارسلنا الی ثمود اخاھم صلحا تا وانجینا الذین اٰمنوا وکانوا یتقون (رکوع 4) یہ تیسرا واقعہ ہے جس کے ضمن میں دعوے کی دوسری علت بیان کی گئی ہے۔ صالح (علیہ السلام) اور ایمان والوں کو اللہ نے بچا لیا اور مشرکین کو ہلاک کردیا۔ ایمان والوں کو بچانا اور مشرکین کو ہلاک کرنا اللہ کا کام ہے اور یہ اسی کے تصرف و اختیار میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ برکات دہندہ بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔ ولوطا اذ قال لقومہ تا فساء مطر المنذرین یہ چوتھا واقعہ ہے اور اس کے ضمن میں بھی دوسری علت مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) اور مومنین کو بچا لیا اور مجرمین کو ہلاک کردیا۔ قل الحمد للہ ۔۔الخ (رکوع 5) یہ لف و نشر غیر مرتب کے طور پر تیسرے اور چوتھے واقعہ پر متفرع ہے یعنی ان دونوں قصوں سے معلوم ہوا کہ صفات کارسازی کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ کافروں کو ہلاک کرنا اور اپنے فرماں بردار بندوں کو عذاب سے بچا کر سلامتی عطا فرمانا اسی کا کام ہے لہٰذا برکات دہندہ بھی وہی ہے اور حاجات میں صرف اسی کو پکارنا چاہیے۔
اس کے بعد اس علت پر پانچ عقلی دلیلیں پیش کی گئی ہیں علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ پہلی عقلی دلیل امن خلق السموت والارض۔۔ الخ دوسری عقلی دلیل امن جعل الارض قرارا ۔۔الخ ۔ تیسری عقلی دلیل امن یجیب المضطر اذا دعاہ۔۔ الخ یہ مقصودی دلیل ہے۔ جب یہ تمام تصرفات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں اور حاجت روا بھی وہی ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ برکات دہندہ بھی وہی ہے لہٰذا مصائب و حاجات میں صرف اسی کو پکارنا چاہیے۔ چوتھی عقلی دلیل امن یھدیکم ۔۔الخ ۔ پانچویں عقلی دلیل امن یبدؤا الخلق ۔۔الخ اور قل ھاتوا برھانکم ۔۔الخ یہ مذکورہ پانچوں دلیلوں سے متعلق ہے یعنی ہم نے تو اپنے دعوے پر دلائل واضحہ بیان کردئیے ہیں لیکن اگر اب بھی تم نہیں مانتے ہو تو کوئی دلیل ہے تو پیش کرو۔
قل لا یعلم من فی السموات۔۔ الخ یہ لف و نشر غیر مرتب کے طور پر پہلے دونوں قصوں پر متفرع ہے یعنی زمین و آسمان میں اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ وقال الذین کفروا۔۔ الخ (رکوع 6) شکوہ ہے۔ دوبارہ جی اٹھنے کی بات ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی کہی گئی۔ بھلا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو پھر دوبارہ جی اٹھنا کیسا یہ تو محض افسانہ ہے۔ قل سیروا فی الارض۔۔ الخ منکرین کے لیے تخویف دنیوی ہے۔ ولا تحزن علیہم۔۔ الخ تسلی برائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ ویقولون متی ھذا الوعد ۔۔الخ یہ دوسرا شکوی ہے۔ قل عسی ان یکون ۔۔الخ یہ جواب شکوی ہے۔ اب آخر میں ہر علت پر ایک ایک عقلی دلیل ذکر کی گئی ہے۔
وان ربک لیعلم ما تکن۔۔ الخ یہ پہلی عقلی دلیل ہے اور پہلی علت سے متعلق ہے۔ یعنی سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ ان ھذا القران۔۔ الخ جملہ معترضہ برائے بیان صداقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ فتوکل علی اللہ ۔۔الخ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ واذا وقع القول۔۔ الخ تخویف دنیوی۔ ویوم نحشر من کل امۃ الخ (رکوع 7) یہ تخویف اخروی ہے۔ الم یروا انا جعلنا الیل ۔۔الخ یہ دوسری عقلی دلیل ہے اور دوسری علت سے متعلق ہے۔ یعنی متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا برکات دہندہ بھی وہی ہے۔ ویوم ینفخ فی الصور۔۔ الخ یہ تخویف اخروی ہے۔ من جاء بالحسنۃ۔۔ الخ بشارت اخروی ہے۔ ومن جاء بالسیئۃ ۔۔الخ تخویف اخروی۔
انما امرت ان اعبد ۔۔الخ آخر میں دعوی مذکورہ پر دلیل وحی بطور ثمرہ۔ انما انا من المنذرین یہ پہلے دونوں قصوں پر متفرع ہے یعنی مجھے معلوم نہیں کہ عذاب کب آئے گا میں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔ قل الحمد للہ سیریکم۔۔ الخ یہ پچھلے دونوں قصوں پر متفرع ہے یعنی تمام صفات کارسازی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں۔
مختصرترین خلاصہ
ابتداء میں تمہید مع ترغیب کے بعد تین بار تسلی کا ذکر۔ ایک بار ابتداء میں دو بار آخر میں۔ انبیاء (علیہم السلام) کے چار قصے۔ پہلے دو قصوں کے ضمن میں پہلی علت بیان کی گئی ہے اور پچھلے دو قصوں میں دوسری علت کا ذکر ہے، اس کے بعد لف و نشر غیر مرتب کے طور پر پچھلے دو قصوں کا ثمرہ ذکر کیا گیا ہے، پھر دوسری علت پر پانچ عقلی دلیلیں ذکر کی گئی ہیں ہر دلیل کے بعد ء الہ مع اللہ فرما کر بندوں سے سوال کیا گیا ہے کہ اس دلیل میں غور کر کے بتاؤ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الہ ہوسکتا ہے ؟ اور اس کے بعد پہلے دو قصوں کا ثمرہ مذکور ہے۔ اس کے بعد لف و نشر مرتب کے طور پر دونوں علتوں پر ایک ایک عقلی دلیل پیش کی گئی ہے۔ آخر میں بطور ثمرہ دونوں پر ایک دلیل وحی ذکر کی گئی ہے اور اختتام پر لف و نشر مرتب کے طور پر اول پہلے دونوں قصوں کا پھر پچھلے دونوں قصوں کا ثمرہ ذکر کیا گیا ہے۔
Download PDF