|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ النحل

سورۃ  النحل مکی دور کی سورۃ ہے، مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 16 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے70 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 128آیات ہیں جو16 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام اسکی  آیت 68 وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ سے ماخوذ ہے۔سورة کا آغاز بغیر کسی تمہید کے یک لخت ایک تنبیہی جملے سے ہوتا ہے۔ کفار مکہ بار بار کہتے تھے کہ  جب ہم تمہیں جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کر رہے ہیں تو آخر وہ اللہ  کا عذاب آکیوں نہیں جاتا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہو۔ اس بات کو وہ بالکل تکیہ کلام کی طرح اس لیے دہراتے تھے کہ ان کے نزدیک یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغمبر نہ ہونے کا سب سے زیادہ صریح ثبوت تھا۔ اس پر فرمایا کہ بیوقوفو ! اللہ کا عذاب تو تمہارے سر پر تلا کھڑا ہے، اب اسکے ٹوٹ پڑنے کے لیے جلدی نہ مچاؤ بلکہ جو ذرا سی مہلت باقی ہے اس سے فائدہ اٹھا کہ بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد فورا ہی تفہیم کی تقریر شروع ہوجاتی ہے اور حسب ذیل مضامین بار بار یکے بعد دیگرے سامنے آنے شروع ہوتے ہیں ۔دل لگتے دلائل اور آفاق وانفس کے آثار کی کھلی کھلی شہادتوں سے سمجھایا جاتا ہے کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حق ہے۔

منکرین کے اعتراضات، شکوک، حجتوں اور حیلوں کا ایک ایک کر کے جواب دیا گیاہے۔باطل پر اصرار اور حق کے مقابلہ میں استکبار کے برے نتائج سے ڈرایا گیا ہے۔ ان اخلاقی اور عملی تغیرات کو اختصارمگر دل نشین انداز سے بیان کیا گیا ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لایا ہوا دین انسانی زندگی میں لانا چاہتا ہے، اور اس سلسلہ میں مشرکین کو بتایا گیا ہے کہ اللہ کو رب ماننا، جس کا انہیں دعویٰ تھا، محض خالی خولی مان لینا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے جو عقائد، اخلاق اور عملی زندگی میں نمودار ہونے چاہئیں۔نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کی امید بندھائی گئی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیاہے کہ کفار کی مزاحمتوں اور جفاکاریوں کے مقابلہ میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔

:سورة النحل  کا سورۃ الحجر سے ربط

اصحاب حجر (قوم ثمود) کا حال آپ نے پڑھ لیا کہ ضد وعناد اور تکذیب و انکار کی وجہ سے انہیں دنیا ہی میں دردناک عذاب سے ہلاک کردیا گیا تمہیں اس عبرتناک واقعہ سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔ اگر اصحاب حجر کے واقعہ سے عبرت نہیں پکڑتے ہو تو آؤ نحل (شہد کی مکھی) کا حال دیکھ لو شاید وہی تمہارے لیے عبرت آموز ثابت ہو۔ یہ ناچیز مکھی کس طرح مختلف پھولوں اور پھلوں سے رس چوس کر لاتی ہے اور شہد ایسی بینظیر چیز تیار کرتی ہے اور اپنے چھتے کا راستہ کبھی نہیں بھولتی۔ یہ معمولی سا جانور جو اتنا بڑا اہم کام انجام دے رہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و صفت کا ایک ادنی سا نمونہ ہے۔ اسی سے عبرت حاصل کرلو اور مسئلہ توحید کو مان لو۔

 سورة ابراہیم میں وقائع امم سابقہ ذکر کرنے کے بعد سورة حجر میں بیان کیا گیا کہ اب وقت ہے مان لو ورنہ پچھتاؤ گے جب اللہ کا عذاب آگیا تو اس سے ہرگز نہیں بچ سکو گے اب سورة نحل میں بیان کیا جائے گا کہ اگر تم دعویٰ توحید کو نہیں مانتے ہو اور ضد وعناد سے عذاب ہی مانگتے ہو تو لو عذاب الٰہی آیا سمجھو اب جلدی نہ کرو۔

 اَتیٰ اَمْرُ اللّٰهِ ۔۔الخ  شروع میں سورة حجر کے تعلق و ربط سے فرمایا سب کچھ سننے اور سمجھنے کے بعد بھی نہیں مانتے ہو تو تیار ہوجاؤ اللہ کا عذاب آگیا ہے اب جلدی نہ کرو۔ چنانچہ اہل مکہ اس کے فوراً بعد قحط کے شدید عذاب میں مبتلا کردئیے گئے جیسا کہ آخر میں اس کا بیان ہے  وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً۔۔ الخ  (رکوع 15)۔

 :مضمون کے اعتبار سے سورت کے دو حصے ہیں

 پہلا حصہ :نفی شرک اعتقادی (شرک فی التصرف)

پہلے حصے میں تین بار دعویٰ توحید کا ذکر ہے۔ جسے نہ ماننے کی وجہ سے منکرین پر عذاب آیا اور توحید (نفی شرک فی التصرف) پر چھ عقلی دلیلیں، ایک نقلی اور ایک دلیل وحی قائم کی گئی ہے۔ اس حصے میں ضمنا بطور زجر دوبارہ نفی شرک فعلی کا ذکر بھی آگیا ہے اور مسئلہ توحید کی خاطر ہجرت کرنے کی فضیلت بھی مذکور ہے۔  یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَةَ بالرُّوْحِ  تا  لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ  میں پہلی بار دعوی توحید کا ذکر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کارساز اور متصرف و مختار نہیں لہٰذا مصائب و مشکلات میں صرف اسی کو غائبانہ پکارو۔

  خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔۔ الخ  یہ توحید پر پہلی عقلی دلیل ہے اور اس سے نفی شرک فی التصرف مقصود ہے۔ زمین و آسمان کو اللہ ہی نے مسئلہ توحید کی خاطر پیدا فرمایا اور انسان کو بھی اسی نے پیدا کیا پھر انسانوں کے آرام و آسائش کے لیے طرح طرح کا ساز و سامان مہیا فرمایا۔ چوپائے پیدا کیے جس میں انسانوں کے لیے بیشمار منافع ہیں کچھ چوپائے ایسے ہیں جن کا وہ گوشت کھاتے اور دودھ پیتے اور اون سے گرم لباس بناتے ہیں اور کچھ چوپائے ان کی سواری اور بوجھ لادنے کے لیے۔ جو اللہ ان تمام اشیاء کا خالق ہے وہی سب کا مالک و مختار اور کارساز ہے۔

  ھُوَ الَّذِي اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ  (رکوع 2) توحید یعنی نفی شرک فی التصرف پر دوسری عقلی دلیل۔ بارش برسانا اور گوناگوں غلے، میوے اور پھل پیدا کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے دن رات کو، سورج، چاند اور تاروں کو اسی نے اپنے حکم سے بنی آدم کی خدمت پر مامور کر رکھا ہے۔ اس نے دریا اور سمندر بنائے جن سے انسانوں کو بیشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔  اَ فَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ۔۔ الخ  یہ دونوں مذکورہ دلیلوں کانتیجہ ہے۔ یعنی جب معلوم ہوگیا کہ عرش سے لے کر فرش تک ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں تمہارے باطل معبودوں نے کائنات کا ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا تو اب تم ہی بتاؤ کہ خالق و مخلوق برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں جو ساری کائنات کا خالق ہے وہی متصرف و مختار ہے اور جو مخلوق ہے وہ عاجز و بےبس ہے۔

  وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ ۔۔الخ  (رکوع 2) توحید پر تیسری عقلی دلیل ہے اور اس سے نفی شرک فی العلم مقصود ہے۔ یعنی ہر ظاہر اور ہر پوشیدہ بات کو جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں جب عالم الغیب وہی ہے تو متصرف و کارساز بھی وہی ہے کیونکہ متصرف و مختار وہی ہوسکتا ہے جو عالم الغیب ہو۔  وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ  تا  یُبْعَثُوْنَ ۔ یہ ثمرہ تینوں دلیلوں میں اضافہ ہے۔  لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ  پہلی دو دلیلوں میں اضافہ ہے، اور  اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاء و۔ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ  تیسری دلیل میں اضافہ ہے۔ یعنی سب کچھ پیدا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے اور جن کو یہ مشرکین اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ خود مخلوق ہیں اور سب کچھ جاننے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور مشرکین کے مزعومہ معبود تو فوت ہوچکے ہیں اور انہیں تو اپنے بارے میں بھی معلوم نہیں کہ وہ دوبارہ کب اٹھیں گے تو پکارنے والوں کے حالات سے وہ کس طرح باخبر ہوسکتے ہیں ؟  اِلٰھُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ۔۔ الخ  (رکوع 3) یہ مذکورہ بالا نتیجے پر متفرع ہے اور اصل دعوی کا اعادہ ہے جب سب کچھ کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے تو سب کا کارساز بھی وہی ہے اور حاجات میں غائبانہ پکار کے لائق بھی وہی ہے۔  وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ  یہ شکوی ہے منکرین ازراہ عناد قرآن کو جو سراپا ہدایت ہے قصوں اور کہانیوں کی کتاب کہتے۔  لِیَحْمِلُوْا اَوْزَارَھُمْ۔۔ الخ اس میں تخویف اخروی ہے۔  قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔۔ الخ  (رکوع 4) اللہ کے دین توحید کے خلاف سازشیں کرنیوالوں کیلئے تخویف دنیوی ہے۔  ثمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ  تا  فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ  یہ ان کے لیے تخویف اخروی ہے۔  وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا  تا  بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ  شرک سے بچنے والوں اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو قبول کرنے والوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔  ھَلْ یَنْظُرُوْنَ۔۔ الخ  تخویف دنیوی ہے۔ امم سابقہ کے منکرین نے ضد وعناد سے عذاب کا مطالبہ کیا تھا تو انہیں عذاب سے ہلاک کردیا گیا۔ مشرکین  مکہ بھی اگر یہی کچھ چاہتے ہیں تو انہیں دنیا ہی میں المناک عذاب کا مزہ چکھا دیا جائے گا۔  وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا الخ  (رکوع 5) ۔ یہ مشرکین کی کٹ حجتی پر شکوی ہے مشرکین کہتے اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا کسی قسم کا شرک نہ کرتے نہ شرک اعتقادی اور نہ شرک فعلی۔  کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ۔۔ الخ  جواب شکوی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں پہلے مشرکین بھی اسی طرح کہا کرتے تھے۔

  وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ۔۔ الخ  یہ تمام انبیاء سابقین سے توحید پر دلیل نقلی اجمالی ہے۔ آپ سے پہلے جتنے بھی ہم نے پیغمبر بھیجے ان سب کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اپنی امتوں کو حکم دیں کہ صرف الہٰ واحد کی بندگی بجا لاؤ اور اس کے سوا کسی کو کارساز اور حاجت روا مت سمجھو اور ہر غیر اللہ کی عبادت اور پکار سے اجتناب کرو۔  فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ۔۔الخ  تخویف دنیوی کی طرف اشارہ ہے۔  وَ اَقْسَمُوْا بِاللّۧهِ جَهْدَ اَیْمَانِھِمْ۔۔ الخ  مشرکین پر شکوی ہے کہ وہ حشر ونشر کو بھی نہیں مانتے۔  لِیُبَیِّنَ لَھُمْ ۔۔الخ  یہ حشر و نشر کی حکمت ہے۔  اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ ۔۔الخ  یہ جواب شکوی ہے مشرکین حشر و نشر کو کیوں بعید از عقل اور مشکل سمجھتے ہیں۔ ہماری قدرت تو اس قدر کامل اور حاوی ہے کہ جب ہم کسی کام کے کرنے کا ارادہ ہی کرلیں تو وہ کام فوراً ہوجاتا ہے۔ تو قیامت بپا کرنا اور مردوں کو دوبارہ زندگی عطا کرنا ہمارے لیے کونسا مشکل کام ہے۔  وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ الخ  (رکوع 6) یہ درمیان میں مہاجرین ‌ؓ کے لیے دنیوی اور اخروی بشارت ہے جنہوں نے محض مسئلہ توحید کی خاطر اپنے وطن سے ہجرت کی۔

  وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ ۔۔الخ  (رکوع 6) سوال مقدر کا جواب ہے۔ ہم اس توحید کو مان لیتے اگر فرشتے ہمیں آکر یہ پیغام دیتے تو اس کا جواب فرمایا کہ ہماری سنت جاریہ یہی ہے کہ ہم انسانوں ہی کو پیغمبر بنا کر انسانوں کے پاس بھیجتے رہے اگر تمہیں اس کا علم نہیں تو اہل کتاب کے علماء سے پوچھ کر تسلی کرلو۔  وَ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ ۔۔الخ  ترغیب الی القرآن ہے۔  اَ فَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَکَرُوْا  تا  فَاِنَّ رَبَّکُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِیْمٌ تخویف دنیوی ہے۔  اَ وَ لَمْ یَرَوْا اِلیٰ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ۔۔الخ  (رکوع 6) ۔ توحید پر چوتھی عقلی دلیل ہے زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابند اور مطیع ہے اور ہر ذی روح مخلوق اور فرشتے بھی اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور اللہ کی عبادت سے غرور نہیں کرتے اور ہر وقت اس سے ترساں و لرزاں رہتے اور اس کے پورے پورے فرماں بردار ہیں۔

  وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْا اِلٰھَیْنِ ۔۔الخ  (رکوع 7) ۔ یہ دعوی توحید کا دوسری بار اعادہ ہے نیز دلیل مذکورہ کا ثمرہ ہے۔ جب ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے نظام میں جکڑی ہوئی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے احکام کا مطیع و فرماں بردار ہے، جانور اور فرشتے بھی اسی کی تسبیح و تقدیس میں مصروف ہیں تو اے بنی آدم تم نے اللہ کے ساتھ ساتھ اوروں کو کیوں کارساز بنا رکھا ہے تم بھی صرف ایک اللہ ہی کو پکارو کیونکہ عبادت اور پکار کے لائق صرف وہی ایک ہی ہے۔  وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔۔ الخ  یہ دلیل مذکور ہی سے متعلق ہے۔

  وَ مَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ۔۔ الخ  یہ زجر ہے۔ یہ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں مصیبتیں بھی وہی دور کرتا ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ مصیبتیں دور کردیتا ہے تو تم اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہو اور انعامات الہیہ کو غیروں کی طرف منسوب کرنے لگتے ہو۔  وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ۔۔ الخ  یہ بھی زجر ہے۔ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں حالانکہ جب ان کے اپنے گھر میں بیٹی پیدا ہوجائے تو وہ اسے بہت بڑی ذلت اور رسوائی خیال کرتے ہیں۔  وَ لَوْ یُؤاخِذُ اللّٰهُ ۔۔الخ  (رکوع 8) ۔ تخویف دنیوی ہے اللہ تعالیٰ مجرموں کو فورا نہیں پکڑتا بلکہ ان کو ڈھیل دیتا ہے اور ان کی گرفت کا اس کے علم میں ایک وقت مقرر ہوتا ہے اس سے پہلے انہیں نہیں پکڑتا اور نہ اس کے بعد مزید مہلت دیتا ہے۔  وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا یَکْرَھُوْنَ۔۔ الخ  یہ زجر ثانی کا اعادہ ہے۔  لَاجَرَمَ اَنَّ لَھُمُ النَّارَ  تخویف اخروی ہے۔  تَا للّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلیٰ اُمَمٍ ۔۔الخ  زجر مع تخویف اخروی تسلی برائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے لوگوں میں ہم نے انبیاء بھیجے، لوگوں نے شیطان کے ورغلانے سے ان کی تکذیب کی اور مسئلہ توحید کا انکار کیا جس کی وجہ سے وہ مستحق عذاب ٹھہرے اب آپ کو آخری ہدایت نامہ دے کر بھیجا گیا ہے آپ مسئلہ توحید کو کھول کر بیان کریں اور اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ مشرکین شیطان کے پیچھے چل کر مسئلہ توحید کا انکار کر رہے ہیں۔

  وَ اللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ  (رکوع 8) تا  اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ (رکوع 9) ۔ توحید پر پانچویں عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ بارش برسا کر مردہ زمین کو زندہ کر کے قابل کاشت و زرخیز بنا دیتا ہے۔ چوپایوں کے پیٹ میں گوبر اور خون کے درمیان میں سے خالص دودھ نکالتا ہے جو ہر ایک کے لیے خوشگوار ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی کو دیکھو ہم نے اس کے دل میں یہ بات ڈال دی ہے کہ وہ مختلف پھولوں اور پھلوں سے رس چوس کر شہد تیار کرے جس میں لوگوں کے لیے شفاء ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے نشانات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سارے عالم میں متصرف و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔  وَ اللّٰهُ خَلَقَکُمْ۔۔ الخ  موت وحیات اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے  وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ ۔۔الخ  مثال برائے معبود حق وبطلان :۔معبودان باطلہ جب تم اپنے غلاموں کو یہ اختیار نہیں دیتے ہو کہ وہ تمہاری طرح تصرف کریں تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیونکر اپنے اختیار و تصرف میں شریک کرسکتا ہے۔ وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَکُمْ۔۔ الخ  تمہاری جنس سے تمہاری بیویاں اس نے پیدا کیں اور تمہیں بیٹے اور پوتے بھی اسی نے عطا کیے اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی لیکن تمہارے خود ساختہ معبود ان کاموں میں سے کوئی کام بھی نہیں کرسکتے۔  وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ۔۔ الخ  (رکوع 10)۔ زجر بطور ثمرہ۔ یعنی سب کچھ بنانے والا اور سب کچھ دینے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا کارساز بھی وہی ہے مگر نادان مشرکین اللہ کی ایسی عاجز مخلوق کو کارساز سمجھتے ہیں جو انہیں کچھ بھی نہیں دے سکتے۔  فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ  یعنی فرشتوں کو بیٹیوں کی مانند قرار دیکراللہ کے یہاں سفارشی مت بناؤ اور اللہ کے لئے مثالیں نہ تراشو۔معبودانِ باطلہ کی دو مثالیں بیان کی گئی ہیں تاکہ مسئلہ خوب واضح ہوجائے۔

  ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْکًا۔۔ الخ  (رکوع 10) معبودان باطلہ کی مثال عبد مملوک کی سی ہے جو کسی چیز کا مالک نہیں اور معبود حق مالک و مختار ہے۔  ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا الرَّجُلَیْنِ  معبودان باطلہ کی مثال ایک گونگے اور عاجز آدمی کی سی ہے جو دوسروں پر بوجھ ہے مگر معبود حق قادر وقیوم ہے اور سارا نظام عالم اس کے ہاتھ میں ہے۔  وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  (رکوع 11) یہ دعوے کا دوسرا جز ہے یعنی سب کچھ کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے  وَ مَا اَمْرُ السَّاعةِ۔۔ الخ  تخویف اخروی ہے۔  وَ اللّٰهُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ ۔۔الخ  توحید پر چھٹی عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا فرمایا اور تمہیں سننے، دیکھنے اور سوچنے کی قوتیں عطا کیں۔  اَ وَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ۔۔ الخ  اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت سے پرندے فضا میں اڑ رہے ہیں۔  وَاللّٰهُ جَعَلَ لَکُمْ  چوپایوں کو تمہارے فائدوں کے لیے اس نے پیدا کیا۔ یہ سارے انعامات اس نے اس لیے تمہیں دئیے  لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ  تاکہ تم اس کی فرماں برداری کرو اور اس کا شکر بجا لاؤ۔  فَاِنْ تَوَلَّوْا  یہ تمام مذکورہ دلائل سے متعلق ہے اور ان کی جزا محذوف ہے یعنی اگر ان دلائل کے باوجود بھی نہ مانیں تو ان پر تف ہے۔  وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ  تا  بِمَا کَانُوْا یُفْسِدُوْنَ  (رکوع 12) ۔ تخویف اخروی ہے اس میں قیامت کے بعض ہولناک مناظر کا بیان ہے۔  وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ ۔۔الخ  اعادہ برائے بعد عہد۔ یعنی دو چیزیں زائد بیان کرنے کے لیے اعادہ کیا گیا اول یہ کہ ان کے اعضاء گواہ ہوں گے دوم یہ کہ نبی(علیہ السلام) بھی ان پر گواہی دیں گے۔

  وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ۔۔ الخ  دلائل عقلیہ کے بعد آخر میں دلیل وحی کا ذکر کیا گیا یعنی مسئلہ توحید آپ اپنی رائے اور اپنی طرف سے بیان نہیں کر رہے بلکہ ذریعہ وحی آپ پر کتاب نازل کی گئی ہے جس میں مسئلہ توحید بیان کرنے کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔  اِنَّ اللّٰهَ یَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ۔۔ الخ  عذاب نازل کرنے سے پہلے دفع عذاب کے لیے امور ثلثہ کی تکمیل فرما دی۔ توحید کو پہلے مدلل کر کے بیان کردیا گیا اور دو باتیں یہاں ذکر کردی گئیں یعنی کسی پر طلم نہ کرو اور لوگوں پر احسان کرو۔ عہد سے یا عہد توحید مراد ہے یا تمام احکام شریعت بجا لانے کا عہد۔ تفصیل آگے آرہی ہے۔  وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ ۔۔الخ  یہ عہد تورنے والوں کی مثال ہے۔  وَ لَا تَتَّخِذُوْا اَیمَانَکُمْ۔۔ الخ  تاکید و اہتمام کے لیے ایفاء عہد کے حکم کا اعادہ ہے۔  مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ۔۔ الخ یہ دنیا سےبے رغبتی اور ترغیب آخرت ہے۔  وَ لَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا  بشارت اخروی ہے۔  فَاِذَا قَرَاتَ الْقُرْاٰنَ۔۔ الخ  متعلق بدلیل وحی جب آپ آسمانی کتاب پڑھ کر لوگوں کو سنائیں گے تو شیطان وسوسے ڈالنے کی کوشش کرے گا اس لیے پہلے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں۔  وَ اِذَا بَدَّلْنَا اٰیَةً ۔۔الخ  (رکوع 14) ۔ شکوی ہے متعلق بدلیل وحی۔ مشرکین قرآن میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کیسا قرآن ہے کہ ایک آیت آتی ہے اور پھر اس کی جگہ دوسری آیت آجاتی ہے۔  قَالُوْا اِنَّمَا اَنْتَ مُفْتَرٍ  تو اس سے معلوم ہوا کہ معاذ اللہ یہ اللہ  کا کلام نہیں بلکہ محمد ﷺ کا افتراء ہے۔  قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ الخ  یہ شبہہ کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ حسب ضرورت و مصلحت جو چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔  وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّھُمْ ۔۔الخ  یہ دوسرا شبہہ ہے۔ مشرکین کہتے ہیں فلاں شخص آکر محمد کو یہ کلام سکھا جاتا ہے اور یہ اللہ کا کلام نہیں۔  لِسَانُ الَّذِيْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ۔۔ الخ  یہ دوسرے شبہہ کا جواب ہے یعنی جس شخص کی طرف سکھانے کی نسبت کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ قرآن صاف اور شستہ عربی میں ہے۔

  اِنَّ الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ  تا  فِی الْاٰخِرَةِ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ  (رکوع 14) تخویف اخروی ہے۔  ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا  مہاجرین کے لیے بشارت اخروی ہے۔  وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً۔۔ الخ  (رکوع 15) ۔ یہ ابتداء سورت سے متعلق ہے۔ ابتداء میں فرمایا جلدی مت کرو اللہ کا عذاب آنے ہی والا ہے یہاں اہل  مکہ پر عذاب واقع ہوجانےکا ذکر کیا۔ مشرکین مکہ کئی سال تک شدید قحط میں مبتلا رہے۔  وَ لَقَدق جَاءَھُمْ رَسُوْلٌ۔۔ الخ  عذاب آنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس اللہ کا رسول آیا تو انہوں نے اس کی تکذیب کی اس لیے ان پر عذاب الٰہی آگیا۔

 دوسرا حصہ: (نفی شرک فعلی)

 فَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰهُ  سے لے کر  لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (رکوع 15) تک ہے اس میں شرک فعلی کی دو شقوں کا رد کیا گیا ہے تحریمات غیر اللہ اور نذر غیر اللہ۔  فَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰهُ ۔۔الخ  تحریمات مشرکین کا رد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حلال چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں انہیں کھاؤ اور ان میں سے اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام مت ٹھہراؤ مثلاً بحیرہ، سائبہ وغیرہ،  اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةَ۔۔ الخ  نذر غیر اللہ کی نفی ہے۔ مشرک اپنے معبودان باطلہ کی خوشنودی کے لیے جو نذریں نیازیں دیتے ہیں وہ حرام ہیں انہیں حلال مت سمجھو اور انہیں مت کھاؤ۔  وَ لَاتَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ  یہ مذکورہ بالا دونوں حکموں پر متفرع ہے بطور لف و نشر غیر مرتب یعنی نذر غیر اللہ حرام ہے اسے حلال مت کہو اور تحریمات غیر اللہ باطل ہیں لہٰذا بحیرہ سائبہ وغیرہ کو حرام مت سمجھو۔  اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰهِ۔۔ الخ  زجر مع تخویف اخروی۔  وَ عَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْا۔۔ الخ  یہ سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ اگر یہ چیزیں حلال ہیں تو یہودیوں پر کیوں حرام کی گئیں جواب دیا گیا بیشک حلال جانوروں کی خود ساختہ تحریم باطل ہے۔ حلال جانوروں کے بعض حصوں کو یہودی حرام سمجھتے ہیں وہ ان کی سرکشی کی پاداش میں ہم نے کود ہی ان پر حرام کئے تھے۔  ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ۔۔ الخ  بشارت اخروی۔آخر میں  اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ کَانَ اُمَّةً  تا  وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ  (رکوع 16) ۔ دونوں حصوں میں نفی شرک فی التصرف اور نفی شرک فعلی کو واضح کرنے کے بعد آخر میں دونوں مضمونوں پر ابراہیم (علیہ السلام) سے دلیل نقلی پیش کی گئی ہے۔  وَ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ  یعنی کسی قسم کا شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ شرک اعتقادی اور شرک فعلی دونوں کی نفی ہے۔  ثُمَّ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ ۔۔الخ  دلیل وحی دونوں دعو وں پر۔ یعنی مجھے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی حکم دیا ہے کہ میں ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا اتباع کروں جو تمام باطل ادیان سے بیزار اور ہر قسم کے شرک (شرک اعتقادی و شرک فعلی) سے پاکدامن تھے۔  اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ  یہ ایک شبہ کا جواب ہے۔ مشرکین نے کہا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی ملت ابراہیمی کے پیرو ہیں تو انہیں جمعہ کے بجائے سبت (یوم شنبہ) کی تعظیم کرنی چاہیے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) یوم شنبہ کی تعظیم کرتے تھے۔ یہاں اس کا جواب دیا گیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف تعظیم سبت کی نسبت سراسر غلط ہے یوم السبت کی تعظیم تو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر فرض کی گئی تھی جو ابراہیم (علیہ السلام) سے سینکڑوں برس بعد ہوئی۔

  اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبَّکَ۔۔ الخ  آخر میں طریق تبلیغ کی تعلیم ہے یعنی دلائل عقل و نقل اور وحی سے مسئلہ توحید کو واضح کر کے پیش کرو اور انداز گفتگو میں نرمی اور حسن اخلاق سے کام لو۔ اگر مخالفین کی طرف کی گئی زیادتیوں کا ان سے بدلہ لینا چاہو تو اس میں حد سے تجاوز نہ کرو اور ان کو اسی قدر تکلیف پہنچاؤ جس قدر تم نے ان کے ہاتھوں تکلیف اٹھائی ہے۔ لیکن اگر صبر کرو اور درگذر سے کام لو تو اس میں تمہاری بہت بہتری ہے۔  وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُکَ۔۔ الخ  یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ فرمایا آپ مشرکین کی شرارتوں پر صبر کریں اور ان کے مسلسل انکار کی وجہ سے غمناک نہ ہوں اور نہ ان کے مکر و فریب کی وجہ سے بےچینی کا اظہار کریں  اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا۔۔ الخ  جملہ ما قبل کے لیے علت ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے پرہیز گار اور مخلص بندوں کا حامی و ناصر ہے وہ مشرکین کے شر سے آپ کو محفوظ رکھے گا اور ہر موقع پر آپ کی حمایت اور مدد فرمائے گا۔

 مختصر ترین خلاصہ

اس سورۃ کے آغازمیں  اللہ رب العزت کی نعمتوں کے ذکر سے ہوا ،جانوروں کی تخلیق بیان کی گئی پھر سمندری نعمتیں بیان کی گئی اور یہ بھی فرمایا گیا کہ اے انسانو اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو ان کا شمار بھی نہیں کرسکتے اس کے بعد اللہ تعالی نے اپنی توحید کا بیان فرمایا ہے پھر منکروں کی موت اور اللہ کے نیک بندوں کی موت میں فرق بتایا گیا ہے پھر توحید کی گفتگو شروع ہوئی ہے اور وہ مختلف زاویوں سے ساری سورت میں جاری ہے ، اس کے ساتھ ہجرت کی فضیلت بتائی گئی ہے پھر بتایا گیا ہے اہل عرب میں بیٹی کے پیدا ہونے پر اہل خانہ کس قدر پریشان ہوتے تھے ،اور اللہ کی یہ قدرت بیان کی گئی ہے کہ وہ مادہ جانور کے پیٹ میں خون اور گوبر کے درمیان سے شیریں دودھ کی نہر چلاتا ہے پھر وہ ایک کیڑے کے پیٹ سے شہد جیسا میٹھا مائع پیدا کرتا ہے پھر دسویں رکوع میں انسان کو یاد دلایا گیا اللہ نے اس کے لیے رشتے بنائے ہیں جن سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اچھے غلام اور نکمے غلام کی مثال دے کر اطاعت الہٰ واحد کی اہمیت بتائی گئی اسی طرح سورۃ کے آخر تک ہر رکوع میں درس توحید کے ساتھ انسان کو عقیدہ و عمل کا درس بھی دیا گیا ہے۔