|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

 سورۃ  المائدہ مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 5پانچویں نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے112 ایک سو بارہ نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 120 آیات ہیں جو 16 رکوع پر مشتمل ہیں ۔اس سورۃ کا نام اسی سورۃ کے رکوع 15 کی آیت (4) اور (6) سے ماخوذ ہے۔ یعنی ھَلْ یَسْتَطِیعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَاء اور اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَۃً مِّنَ السَّمَاءِ ۔ سورت کی ابتدائی آیات میں عہدوں کو پورا کرنے اور حالت احرام میں شکار کی ممانعت ہے ۔ پھر شعائر اللہ کی بےحرمتی سے منع فرمایا گیا ہے اور احرام کھولنے کے بعدشکار کی اجازت کا ذکر ہے ۔ اس کے بعد چند حرام چیزوں کا بیان ہے ۔  پھر دین اسلام کے مکمل ہونے ، اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس امت کے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرنے ، حلال جانوروں اور اہل کتاب کے ذبیحہ کے حلال ہنے اور اہل کتاب سے بحالت مجبوری رشتہ ازدواجیت کی اجازت کا بیان ہے ،وضو کی فرضیت ، تمیم اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی پابندی اور عدل و انصاف قائم کرنے کی تاکید ہے ۔ پھر اہل ایمان پر انعام اور کفار پر عذاب کا تذکرہ ہے اور اہل کتاب کو نصیحت ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے چند انعامات یاد دلائے ہیں ۔بنی اسرائیل سے عہد لینے اور ان کی عہد شکنی پر سزا کا ذکر ہے ۔ پھر نصاریٰ سے عہد اور ان کی بدعہدی کی سزا کا ذکرہے ،اور اہل کتاب کو نصیحت اور یہود ونصاریٰ کے غلط عقائد کا بیان ہے ۔موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے خطاب ، بنی اسرائیل کو ہمت دلانا اور ان کی گستاخی کا ذکر ہے۔ پھرموسیٰ ؑ کی دعا اور بنی اسرائیل کی نافرمانی کا انجام مذکور ہے ۔ہابیل وقابیل کی قربانی ، ہابیل کی نصیحت اور ہابیل کے قتل کا ذکر ہے ۔ پھر دفن کی تدبیر، انسانی جان کی حرمت ، شرعی سزاؤں اور توبہ کی گنجائش کا بیان ہے۔ جہاد کی تاکید ، کفر کی سزا اور کفار پر عذاب کا ہمیشہ رہنا ، چوری کی سزا اور چور کی توبہ کے قبول ہونے کا ذکر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور کفار کے اسلام نہ لانے پررسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دلبرداشتہ ہونا ، عدل و انصاف قائم کرنے اور یہود کی بداعتقادی کا بیان ہے۔ احکامات الہیٰ کے بدلنے کی ممانعت اور تورات کے بعض احکامات کا ذکر ہے ۔ پھر تورات وانجیل کے اپنے اپنے زمانے میں نافذ العمل ہونے اور قرآن کے قیامت تک واجب اعلمل ہونے کا بیان ہے ۔ اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہود کی نفسانی خواہشات کی پیروی کی ممانعت ہے ۔یہود ونصاریٰ سے دوستی کی ممانعت ، منافقین کے طرز عمل اور ارتداد کے انجام کا بیان ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوستی کی تاکید ہے ۔کفار سے دوستی کی ممانعت اور مسلمانوں کےساتھ منافقین کے تمسخر کا ذکر ہے ۔ پھر یہودومنافقین کی بری خصلتوں اور دھوکہ دہی کا بیان ہے ۔ آخرمی یہود کے نیک لوگوں کا تذکرہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ دین کا حکم ، قلبی اطمینان پانے والوں کا ذکر ، یہود کا انبیاء کو قتل کرنا اور سزا سے بےخوف ہونا اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے منسوب غلط عقائد کا بیان ہے۔ باطل معبودوں کی عبادت پر تنبیہ اور دین کے بارے میں اہل کتاب کی من مانی کا ذکر ہے ۔بنی اسرائیل کے کفار پر لعنت ، ان کے برے افعال کا ذکر اور یہود ومشرکین کی عداوت کا بیان ہے ۔ آخر میں حق کو پہچان کر ایمان لانے والوں اور حق پرستی کے اجراواصحاب النار کا تذکرہ ہے ۔بھر دین میں حد سے تجاوز کی ممانعت ، حلال وطیب چیز کھانے کا حکم ، قسم کے کفارے اور حرام چیزوں کا بیان ہے ۔ پھر شیطان کی فتنہ پردازیوں اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگوں کا تذکرہ ہے ۔مومنوں کی آزمائش ، حالت احرام میں شکار کی ممانعت اور دریائی شکار کی حلت کا بیان ہے ۔ پھر امن و اطمینان کے ذرائع اور تبلیغ دین کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری کا ذکر ہے ۔فضول سوالات سے اجتناب کی تاکید، شرکیہ رسومات کا ابطال ، کفار کے گمراہ خیالات اور موت کے وقت وصی اور گواہ مقرر کرنے کا بیان ہے ۔قیامت کا حال ، عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے انعامات۔عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کی جانب سے آسمانی کھانا طلب کرنا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے آسمان سے کھانے کے نزول کا بیان ہے ۔عیسیٰ (علیہ السلام) کی شرک سے برات، سچے لوگوں کے لیے جنت کی نعمتوں کی بشارت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اعلان ہے۔

:سورۃ المائدہ کا سورۃ النساء اور ماقبل سے ربط

سورة بقرہ میں وہ تمام مضامین ذکر گئے ہیں جو سارے قرآن میں تفصیل سے ذکر کیے گئے ہیں۔ توحید، رسالت، جہاد فی سبیل اللہ، انفاق فی سبیل اللہ، امور اتنظامیہ وغیرہ۔ سورة بقرہ میں نفی شرک اعتقادی یا نفی شرک فی التصرف، نفی شرک فعلی اور نفی شفاعت قہری کو نقلی اور عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کر کے ذکر کیا گیا۔ پھر سورة آل عمران میں صرف شرک اعتقادی اور شرک فی الدعاء کی نفی کی گئی اور توحید و رسالت پر علماء اہل کتاب کے شبہات کا رد کیا گیا اس کے بعد سورة انساء میں امور انتظامیہ متعلقہ رعیت و حکام (احکام رعیت اور احکام اقتداریہ) کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔ اور درمیان میں نفی شرک فعلی اور نفی شرک اعتقادی کا بھی قدرے ذکر کیا گیا۔ اب سورة مائدہ میں اور اس کے بعد انعام میں نفی شرک فعلی کو تفصیل سے ذکر کیا گیا اور اس کے پہلو بہ پہلو شرک فی التصرف کی نفی بھی مذکور ہے۔ سورة النساء کے آخر میں فرمایا  تھا۔ وَیُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا یعنی اللہ تعالیٰ اپنے احکام کھول کھول کر اس لیے بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔ اس لیے شرک و کفر کی گمراہی سے بچانے کے لیے سورة مائدہ میں شرک فعلی اور شرک اعتقادی کا تفصیل سے رد فرمایا۔

 :سورة المائدہ کے دو حصے ہیں

حصہ اول: ابتدائے سورت سے لیکر رکوع نمبر 6 میں وَاللہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ  تک ہے۔ اس حصے میں شرک کی مذکورہ بالا دونوں قسموں (شرک فعلی اور شرک اعتقادی)کا رد کیا گیا ہے۔ شروع سے لیکر رکوع 3 میں وَ سَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ  تک شرک فعلی کی نفی کا بیان ہے اور اس کے متصل بعد یَااَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ ۔۔۔الخ سے لے کر حصہ اول کے آخر تک میں شرک اعتقادی کی نفی کا ذکر ہے۔ شرک فعلی کے رد کے دوران یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذاَ قُمْتُمْ اِلیَ الصَّلٰوۃِ سے ایک امر مصلح یعنی صلوۃ کا ذکر کیا ہے۔ حصہ اول کے بعد یَا ایُّھَالرَّسُولُ لَایَحْزُنکَ۔۔ الخ سے لے کر رکوع 9 کے آخر وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ تک میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین اور منافقین یہود کے مخالف رویہ پر غم کرنے سے منع فرمایا اور آپ کو تسلی دی اور اس کے بعد یہود و نصاریٰ کے مولویوں اور پیروں پر زجریں فرمائیں جو اللہ کی کتاب میں رد و بدل کرتے اور خود بھی شرک کرتے تھے۔ وہ غیر اللہ کو پکارتے تھے اور غیر اللہ کی نیازوں کو حلال سمجھ کر کھاتے بھی تھے۔ اور لوگوں کو بھی شرک سکھاتے اور ان کو بد راہ کرتے تھے۔ اس کے بعد یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتِّخذُوْا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَاریٰ اَوْلِیَاءَ سے اہل ایمان کو حکم دیا کہ جب ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ یہود و نصاریٰ اپنی خواہشات کی وجہ سے توحید کو نہیں مانتے اور شرک سے اور شرک کی اشاعت سے باز نہیں آتے تو ان سے بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ طاغوت کا کفر نہ کرنے والوں اور انکے رسم و رواج کو ترک نہ کرنے والوں کو اللہ نے ذلیل بندر اور خنزیر بنا دیا تھا۔اب جو ان سے بائیکاٹ نہ کرے گا اور بدستور ان سے دوستی رکھے گا اسے انہی میں شمار کیا جائے گا۔

حصہ دوم: یَا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ۔۔۔ الخ (رکوع 10) سے سورت کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جو سورت کے آخر تک چلا گیا ہے۔ اس حصے میں بھی انہی دونوں مضمامین کا لف و نشر غیر مرتب کے طور پر اعادہ کیا گیا ہے۔ حصہ دوم کی ابتداء سے لیکر کو ع 11 کے اختتام یعنی اُوْلٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْم تک شرک اعتقادی کی نفی مذکور ہے اور رکوع 12 کی ابتدا یعنی یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبَاتِ مَا اَحَلَّ اللہُ لَکُمْ۔۔ الخ سے لیکر سورت کے آخر تک شرک فعلی کی نفی مذکور ہے۔ اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے بیان فرمایا کہ اللہ کی تحریمات کو باقی رکھو اور غیر اللہ کی تحریمات کو ختم کردو۔ نیز اللہ کی نذرو نیاز کو حلال سمجھو اور کھاؤ لیکن غیر اللہ کی نیازوں کو حرام جانو اور ان کو مت کھاؤ۔ آخر میں لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ والْاَرْضِ۔۔ الخ سے پوری سورت کا مختصر خلاصہ بیان فرما دیا ہے۔ یعنی زمین و آسمان کی حکومت اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے نہ کہ مسیح (علیہ السلام) کے قبضے میں جیسا کہ نصاریٰ کا گمان ہے کہ عیسیؑ بھی متصرف و مختار ہیں اس سے بالذات شرک فی التصرف کی نفی ہے۔ جب زمین و آسمان کی حکومت اللہ کے ہاتھ میں ہے تو اس کے سوا کوئی متصرف و مختار اور کوئی عبادت اور پکار کا مستحق نہیں۔

:مختصر ترین خلاصہ

حلال و حرام کی وضاحت کر دی گئی ہے،لہذا یہ فیصلہ کُن بات ہے کہ حلت و حرمت کے یا بالفاظ دیگر قانون سازی کے جملہ اختیارات اللہ ہی کو ہیں۔ لہٰذا جس چیز کو وہ چاہے حلال قرار دے اور جس کو چاہے حرام کر دے۔عوام الناس اسکی اطاعت کرنی ہے ،مرنےکے بعدکسی قسم کا شرک معاف نہیں ہے ،اسکا ٹھکانہ جہنم ہے۔انبیاء پر افتراء نہ کرو ،جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن ِ مریم ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی اللہ بنالو ؟ تو وہ جواب میں کہیں گے اے اللہ تو پاک ہےمیرے لیے یہ بات زیبا نہیں ہے کہ ایسی بات کہوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ بیشک تمام چھپی باتوں کو جاننے والے ہیں۔لہذا روز قیامت تمام انبیاء ہر قسم کے الزام سے بری ہونگے۔