|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  الفتح

سورۃ  الفتح  مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 48 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے111نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 29آیات ہیں جو4 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام پہلی ہی آیت کے الفاظ  اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا سے ماخوذ ہے۔یہ محض اس سورۃ کا نام ہی نہیں بلکہ مضمون کے لحاظ سے بھی اس کا عنوان ہے کیونکہ اس میں اس فتح عظیم پر کلام کیا گیا ہے جو صلح حدیبیہ کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کو عطا فرمائی تھی۔

 :سورةالفتح  کا سورۃ محمد ﷺ سے ربط

سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اعلان جہاد کیا گیا تھا۔ اب سورة فتح میں، فتح کی خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ جب تم جہاد کروگے تو اللہ تمہیں فتح دے گا۔

 پہلا حصہ : انا فتحنا لک  یہ پہلی خوشخبری ہے۔ صلح حدیبیہ کی ظاہر شرائط کو دیکھ کر اسے شکست نہ سمجھو یہ حقیقت میں تمہاری فتح عظیم ہے۔  ھو الذی انزل السکینۃ  یہ دوسری بشارت ہے اللہ نے مومنوں کے دل پر طمانیت نازل فرما کر ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔  لیزدادوا ایمانا۔۔ الخ  یہ دوسری بشارت کی پہلی علت ہے یعنی تاکہ ان کا ایمان مضبوط ہوجائے۔  لیدخل المومنین۔۔ الخ  یہ دوسری بشارت کی دوسری علت ہے۔ درمیان میں  وللہ جنود السموات۔۔ الخ  جملہ معترضہ ہے۔ برائے اتمام بشارت یعنی وہ فتح دینا اور سکینہ اتارنا اس کے اختیار میں ہے۔  ویعذب المنفقین۔۔الخ  یدخل پر معطوف ہے  وللہ جنود السموات ۔۔الخ  اعادہ، جملہ معترضہ برائے تاکید۔  انا ارسلنک ۔۔الخ  بیان توحید بطور ترقی از سورة محمد بعد بیان دو بشارت۔  ان الذین یبایعونک۔۔ الخ  ترغیب فی الجہاد۔ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسے پورا کرنے والے بڑا اجر وثواب پائیں گے۔  سیقول لک۔۔ الخ  یہ ان منافقین پر زجر ہے جو واقعہ حدیبیہ میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ لوگ آپ کے پاس آ کر لنگڑے بہانے بنائیں گے اور جھوٹ بولیں گے۔ یہ لوگ مصائب و تکالیف سے بچنے کے لیے ساتھ نہیں گئے تو اگر اللہ تعالیٰ ان پر اور ان کے گھروں ہی میں مصیبت ڈال دے تو تمہیں ان سے کون بچائے گا۔  بل ظننتم۔۔ الخ  یقولون بالسنتم کی تفسیر ہے۔ تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ رسول اور مومنین زندہ سلامت واپس نہیں آئیں گے۔ مشرکین ان کا تکہ بوٹی کردیں گے۔  ومن لم یؤومن۔۔الخ تخویف اخروی۔  وللہ ملک السموات ۔۔الخ  جملہ معترضہ۔  سیقول المخلفون۔ ۔الخ  زجر برائے منافقین۔ یہ لوگ سفر مکہ میں آپ کے ساتھ نہیں گئے۔ کیونکہ جان کا خطرہ تھا۔ لیکن جنگ خیبر میں شریک ہونا چاہتے ہیں، کیونکہ مسلمانوں کا پلہ بھاری ہے اور انہیں مال غنیمت سے حصہ مل جانے کی توقع ہے انہیں فرما دیجئے تمہیں ہمارے ساتھ شریک ہونے کی اجازت نہیں۔  قل للمخلفین من الاعراب۔ ۔الخ  تمہیں عنقریب ایک اور موقع دیا جائے گا جس میں تمہاری آزمائش ہوگی اگر اس میں تم نے اخلاص و اطاعت کا ثبوت دیا تو تمہیں بہت اچھا بدلہ دیا جائے گا۔ لیس علی الاعمی۔۔الخ  یہ لوگ معذور ہیں جہاد میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے ان پر کوئی گناہ نہیں۔

دوسرا حصہ :  لقد رضی اللہ عن المومنین۔ تا۔ وکان اللہ بکل شیء علیما  (رکوع 3) ۔ مضامین حصہ اول میں سے مومنین کے لیے بشارت اخرویہ اور مشرکین پر غلبہ حاصل ہونے کی خوشخبری کا اعادہ۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا ذکر۔  لقد صدق اللہ  تا  فتحا قریبا  جواب شبہہ۔ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوب میں دیکھا کہ آپ صحابہ کی معیت میں مسجد حرام میں داخل ہو رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہ ہوسکا اور آپ کو صحابہ (رض) سمیت مقام حدیبیہ سے واپس مدینہ جانا پڑا تو جواب دیا گیا کہ خواب سچا ہو کر رہے گا اور آپ مع صحابہ (رض) ضرور مسجد حرام میں داخل ہوں گے اور عمرہ ادا کریں گے۔ اس سال نہ سہی اگلے سال یہ خواب پورا ہوگا۔ کیونکہ خواب میں سال کی کوئی تعیین نہیں کی گئی تھی۔  ھو الذی ارسل رسولہ۔ تا۔ محمد رسول اللہ  جواب شبہہ کے بعد اتباع رسول اور مسئلہ توحید کی ترغیب  والذین معہ۔ ۔الخ  مدح و بیان اوصاف صحابہ (رض) تاکہ بعد والے ان کا اتباع کریں۔

مختصر ترین خلاصہ

 مضمون کے اعتبار سے اس سورت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ از ابتداء تا  عذابا الیما رکوع 2 ۔ اس میں دو بشارتیں اور ان کی علتیں مذکور ہیں۔ اور ترغیب الی الجہاد اور زجر برائے منافقین، سورت محمد سے بطور ترقی مسئلہ توحید کا بیان یعنی  تسبحوہ  شرک کی نفی کرو۔ اور دوسرا حصہ  لقد رضی اللہ  ابتداء رکوع 3 تا آخر سورت، اعادہ مضامین حصہ اول اور آخر میں  لقد صدق اللہ۔۔ الخ  سے ایک شب ہے کا ازالہ۔