سورۃ الطورمکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 52 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے75نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 49آیات ہیں جو2 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام پہلے ہی لفظ وَالطُّوْرِ سے ماخوذ ہے۔سورۃ طور کے دو رکوع ہیں۔ پہلے رکوع میں قیام قیامت کی منظر کشی ہے اس کے بعد جہنم کے عذابات بتائے گئے ہیں اور جنتی نعمتوں کا بیان ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اہل تقوی کی وجہ سے ان کی اولاد پر رحم کیا جاتا ہے، اسی ضمن میں وعدہ کیا گیا ہے اہل جنت جنت میں جا کر کس طرح اللہ کا شکر ادا کریں گے۔ اس میں یہ درس ہے کہ نعمت ملنے پر انسان کے دل میں جذبۂ شکر پیدا ہونا چاہیے۔جبکہ دوسرے رکوع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جانے والی جنون، کہانت اور شاعری کی نسبت کا ردّ کیا گیا ہے، پھر صداقت قرآن کا بیان ہے اور اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے اولاد کی نفی کی گئی جو توحید الٰہی کا درس ہے۔
:سورة الطور کا الذاریات سے ربط
سورة الذاریات میں فرمایا تھا ان الدین لواقع یعنی جزاء و سزا ضرور ہوگی۔ اب سورة الطور میں بطور ترقی فرمایا۔ ان عذاب ربک لواق، مالہ من دافع منکرین پر قیامت کے دن اللہ کا عذاب واقع ہوگا اور اللہ کے عذاب اور جزاء وسزا کو کوئی روک نہ سکے گا اور نہ کوئی اس سے بھاگ کر اپنی جان بچا سکے گا۔
والطور یہ دلیل نقلی کی طرف اشارہ ہے یعنی کوہ طور گواہ ہے۔ جہاں موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی نازل ہوئی۔ و کتاب مسطور یہ دلیل نقلی کتب سابقہ سے ہے۔ یعنی کتب سابقہ بھی شاہد ہیں کہ جزاء و سزا واقع ہوگی اور اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ والبیت المعمور، آسمانوں پر فرشتوں کا قبلہ ہے یہ دلیل وحی کی طرف اشارہ ہے۔بعض کے ہاں بیت معمور خانہ کعبہ ہے جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوئی تھی وہ بھی گواہ ہے وہاں آپ پر یہی حکم نازل ہوا تھا۔ والسقف المرفوع یہ پہلی عقلی دلیل ہے۔ آسمان بلند کے احاطہ سے تم باہر نہیں نکل سکتے۔ سمندر نے تمہیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اسی طرح تم اللہ کے حیطہ قدرت سے باہر نہیں جاسکتے۔ اور سمندر کی طرح اللہ کا عذاب تمہیں ہر طرف سے گھیر لے گا۔ اسی طرح عذاب ربک۔ تا۔ دافع یہ جواب قسم ہے اور مذکورہ بالا پانچوں شاہد ہیں کہ جزاء سزا ضرور واقع ہوگی اور اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ یوم تمور السماء۔ تا۔ ما کنتم تعملون یہ جزاء و سزا میں سے ایک شق یعنی تخویف اخروی کا بیان ہے۔ جس دن آسمان لرز اٹھے گا۔ اور پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔ وہ جھٹلانے والوں کی ہلاکت کا دن ہوگا۔ جنہوں نے اپنی ساری عمر بیہودگیوں میں گذار دی۔ اس دن ان کو جہنم میں دھکیل کر ان سے کہا جائے گا یہ وہی جہنم ہے جسے تم مانتے تنہ تھا کیا یہ بھی جادو ہے ؟ کیا یہ بھی تمہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ جس طرح دنیا میں حق کو جادو کہا اور دلائل واضحہ دیکھنے کے باوجود کہا ہمیں تو کچھ نظر آتا ہی نہیں۔ اب صبر کرو یا بےصبری کا اظہار کرو، اپنے اعمال بد کی سزا کا مزہ تو چکھنا ہی ہوگا۔ ان المتقین۔ تا۔ ھو البر الرحیم (رکوع 1) ۔ یہ جزاء وسزا کی دوسری شق یعنی بشارت اخروی کا بیان ہے۔ شرک سے بچنے والے جنت کی نعمتوں میں خوش و خرم ہوں گے اور عذاب سے محفوظ ہونگے۔ ہر قسم کے ماکولات و مشروبات حاضر ہونگے۔ تختوں پر آرام کریں گے۔ حوران بہشتی کی رفاقت ہوگی۔ اونچے رتبے والے مومنوں کی کم درجہ کی مومن اولاد کو جنت میں ان کے آباء و اجداد کے اونچے درجے میں جگہ دیجائیگی ہر قسم کے میوے اور ہر قسم کا گوشت مہیا ہوگا۔ شراب طہور کا دور چلتا ہوگا۔ سچے موتیوں کی طرح حسین و جمیل خدام حاضر خدمت ہوں گے اہل جنت آپس میں گفتگو کریں گے کہ ہمیں تو بہت خطرہ اور ڈر تھا۔ لیکن اللہ نے محض اپنے فضل و احسان سے ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لیا۔ کیونکہ ہم دنیا میں صرف اسی محسن و مہربان کو پکارتے تھے اور اس کی پکار میں کسی کو شریک نہ کرتے تھے۔ اس آیت میں بیان توحید ہے علی سبیل الترقی اور ثمرہ توحید ہے۔ فذکر فما انت۔۔الخ یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے تسلی ہے۔ آپ وعظ و تبلیغ میں مصروف رہیں آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اللہ کی مہربانی سے آپ نہ کاہن ہیں نہ مجنون جیسا کہ معاندین کہتے ہیں۔ ام یقولون۔۔الخ یہ شکوی ہے۔ کبھی کہتے ہیں وہ شاعر ہے، اچھا صبر کرو آخر موت اس کا خاتمہ کردے گی۔ قل تربصوا۔۔الخ جواب شکوی تم بھی انتظار کرو میں بھی منتظر ہوں عنقریب دونوں کا انجام ظاہر ہوجائے گا۔ ام تامرھم ۔۔الخ پیغمبر (علیہ السلام) کے بارے میں وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کا منشا عقل و فہم نہیں، بلکہ ان کی سرکشی اور عناد کا نتیجہ ہے۔ ام یقولون تقولہ۔۔الخ یہ شکویٰ ہے۔ کبھی کہتے ہیں یہ اپنے پاس سے بناتا ہے۔ فلیاتوا۔۔الخ جواب شکوی۔ اگر وہ اس دعوے میں سچے ہیں تو ایسا کلام وہ بھی بنا کرلے آئیں۔ ام خلقوا من غیر شیء۔ تا۔ سحاب مرکم یہ زجرات ہیں۔ مشرکین کے مختلف خیالات باطلہ پر ان کو تنبیہہ کی گئی ہے۔ کیا انہیں کسی مقصد کے بغیر پیدا کیا گیا ہے یا وہ خود ہی اپنے خالق ہیں کہ وہ خالق حقیقی کی عبادت نہیں کرتے ؟ یا وہ زمین و آسمان کے خالق ہیں کہ اصل خالق کی عبادت سے اعراض کرتے ہیں ؟ کیا وہ اللہ کے خزانوں کے مالک اور نگران ہیں کہ نبوت اور رزق وغیرہ جسے چاہیں عطاء کریں ؟ یا ان کو آسمان پر جا کر فرشتوں کا کلام سننے اور امور غیبیہ کا علم حاصل کرنے پر قدرت حاصل ہے اوروہ معلوم کر آئے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان سے پہلے موت آئیگی ؟ ان کی سفاہت و جہالت کا حال یہ ہے کہ خود تو بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے، لیکن فرشتوں کواللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں۔ کیا آپ ان سے تبلیغ پر تنخواہ مانگتے ہیں کہ وہ اس مالی بوجھ کی وجہ سے آپ کا اتباع نہیں کرتے ؟ کیا وہ غیب جانتے ہیں کہ دعوے کرتے ہیں کہ قیامت نہیں آئیگی ؟ کیا وہ پیغمبر (علیہ السلام) اور مسلمانوں کے خلاف کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں ؟ یاد رکھیں کافروں کے منصوبے خود انہی پر الٹ دئیے جاتے ہیں۔ کیا اللہ کے سوا ان کا کوئی اور الہٰ (کارساز) ہے جو انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لے گا ؟ ان کی سرکشی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اگر آسمانوں کا ایک ٹکڑا بصورت عذاب ان پر نازل کردیا جائے تو اسے دیکھ کر کہیں گے کہ یہ عذاب نہیں، بلکہ باران رحمت سے لبریز بادل ہے۔ فذرھم حتی یلاقوا آپ ان معاندین سے اعراض فرمائیں اور اس دن کا انتظار فرمائیں۔ جب ان پر بےہوشی طاری ہو ہوگی اور ان کا کوئی حیلہ ان کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گا اور نہ کوئی ان کی مدد ہی کرے گا۔ وان للذین ظلمو۔۔الخ یہ تخویف دنیوی ہے ان ظالموں اور سرکشوں کے لیے اس سے پہلے دنیا میں بھی عذاب ہے۔ واصبر لحکم ربک۔۔الخ یہ آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دوسری بار تسلی کا ذکر ہے۔ آپ اللہ کے حکم کا انتظار فرمائیں ہم آپ کے محاظ و نگہبانی ہیں اور اوقات صلوۃ میں اللہ کی تسبیح وتحمید میں مصروف رہا کریں۔
:مختصر ترین خلاصہ
دعوائے سورت پر دو عقلی اور دو نقلی دلیلیں ( ایک موسیٰ (علیہ السلام) سے اور ایک کتب سابقہ سے) اور ایک دلیل وحی۔ درمیان میں اور آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی۔ باقی تخویف و بشارت اور زجرات مذکور ہیں۔
Download PDF