|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ الزمر

سورۃ الزمر مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 39 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سےبھی 59 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 75آیات ہیں جو8 رکوع پر مشتمل ہیں۔ اس سورة کا نام آیات نمبر 71تا73 وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلیٰ جَھَنَّمَ زُمَراً اور وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَراً   سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورة جس میں لفظ زمر آیا ہے۔ یہ پوری سورۃ ایک بہترین اور انتہائی موثر خطبہ ہے جو ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے مکہ کی ظلم و تشدد سے بھری ہوئی اور عناد و مخالفت سے لبریز فضا میں دیا گیا تھا۔ یہ ایک وعظ ہے جس کے مخاطب زیادہ تر کفار قریش ہیں، اگرچہ کہیں کہیں اہل ایمان سے بھی خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں محمدﷺ کی دعوت کا اصل مقصود بتایا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان خالص اللہ کی بندگی اختیار کرے اور کسی دوسرے کی طاعت و عبادت سے اپنے دین کو شرک سے آلودہ نہ کرے۔ اس اصل الاصول کو بار بار مختلف انداز سے پیش کرتے ہوئے نہایت زور دار طریقے پر توحید کی حقانیت اور اسے ماننے کے عمدہ نتائج، اور شرک کی غلطی اور اس پر جمے رہنے کے برے نتائج کو واضح کیا گیا ہے، اور لوگوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنی غلط روش سے باز آ کر اپنے رب کی رحمت کی طرف پلٹ آئیں۔ اسی سلسلے میں اہل ایمان کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اگر اللہ کی بندگی کے لیے ایک جگہ تنگ ہوگئی ہے تو اس کی زمین وسیع ہے، اپنا دین بچانے کے لیے کسی اور طرف نکل کھڑے ہو، اللہ تمہارے صبر کا اجر دے گا۔ دوسری طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ ان کفار کو اس طرف سے بالکل مایوس کردو کہ ان کا ظلم و ستم کبھی تم کو اس راہ سے پھیر سکے گا اور ان سے صاف صاف کہہ دو کہ تم میرا راستہ روکنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہو کر ڈالو، میں اپنا یہ کام جاری رکھوں گا۔  

 :سورة زمر کا سورۃ ص سے ربط

سورة ص میں واضح کیا گیا کہ جن کو تم شفعاء سمجھتے ہو وہ تو خود بطور امتحان و ابتلاء بعض جسمانی تکالیف میں ماخوذ ہیں اس لیے اللہ کی بارگاہ میں کوئی شفیع غالب نہیں۔ اب سورة زمر میں بیان کیا جائے گا کہ اہل توحید اور اہل شرک (غیر اللہ کو شفیع غالب ماننے والے وغیرہ) مختلف گروہوں (زمر) میں بٹ جائیں گے۔ اہل توحید جنت میں اور اہل شرک جہنم میں جائیں گے۔

سورة سبا میں نفی شفاعت قہری کا مضمون مذکور تھا اور سورة فاطر میں بطور تفریع مذکور تھا کہ کارساز اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ حاجات میں مافوق الاسباب صرف اسی کو پکارو۔ اس کے بعد سورة یسین، صافات اور ص سورة سبا پر مرتب ہیں۔ کیونکہ ان تینوں سورتوں میں علی سبیل الترقی نفی شفاعت قہری کا ذکر ہے۔ اور سورة زمر سورة فاطر پر مرتب ہے۔ اور اس کا کچھ حصہ سورة سبا پر بھی مرتب ہے۔ یعنی والذین اتخذوا من دونہ اولیاء ما ندبھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی (رکوع 1) اور  اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ شُفَعَاء (رکوع 5) جب اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں اور نہ اس کی بارگاہ میں کوئی شفیع غالب ہے تو ہر قسم کی عبادت صرف اسی کی بجا لاؤ اور حاجات میں صرف اسی کو پکارو۔

 تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ۔۔ الخ  تمہید مع ترغیب۔ یہ بہت بڑے غالب اور حکیم کا حکمنامہ ہے اسے مانو۔ اس سورۃ کو مضمون کے اعتبار سے چھ سلسلہائے مضامین میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (1) سلسلہ مضمون ذکر دعوی۔ (2) سلسلہ دلائل عقلیہ۔ (3) سلسلہ دلائل وحی۔ (4) سلسلہ بیان ثمرات (5) سلسلہ ذکر زجرات اور (6) سلسلہ تقابل بین المومنین والمشرکین۔

 ایک: سلسلہ مضمون ذکر دعوی :۔ دعویٰ سورۃ کو تین بار ذکر کیا گیا ہے۔ اول  فَاعبُدُ وْ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْن  یہ دعوی سورة سابقہ پر متفرع ہے۔ جب اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں اور کوئی اس کی بارگاہ میں شفیع قاہر نہیں تو صرف اسی کی عبادت کرو۔  اَلَا لِلّٰہ الدِّیْنُ الْخَالِصُ  یہ تنبیہہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔  ھُوَ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ ۔ یہ دعوی پر تفریع ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہٗ لا شریک ہے اور سب پر غالب ہے۔ ذکر دعوی دوسری بار۔  قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہٗ دِیْنِیْ  (رکوع 2) ، میں تو صرف اللہ ہی کی عبادت کروں گا واضح دلائل کے باوجود تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں غیر اللہ کی عبادت کروں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔

 دو: سلسلہ دلائل عقلیہ علی سبیل الترقی :۔ پہلی عقلی دلیل :  خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ  تا۔  اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ  (رکوع 1) ۔ زمین و آسمان کو اللہ نے پیدا فرمایا۔ یہ دن رات کی آمد و رفت اور سورج اور چاند کا میعاد معین تک چلنا یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس کائنات میں غور و فکر کرو۔ یہ سب اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت کے دلائل ہیں۔ دوسری عقلی دلیل :  خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ  تا  فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ  (رکوع 1) ۔ یہ دلیل اول سے بطور ترقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف نظام شمسی کو پیدا فرمایا بلکہ خود تمہیں بھی اسی نے پیدا فرمایا۔ رحمِ مادر میں مختلف حالات سے گذار کر تمہاری پیدائش کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ تیسری عقلی دلیل :  اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ  تا  لَذِکْرٰی لِاُوْلِی الْاَلْبَابِ  (رکوع 2) ۔ یہ دوسری دلیل سے بطور ترقی ہے۔ اللہ نے تمہیں پیدا کر کے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا۔ بلکہ تمہاری زندگی کی تمام ضروریات خصوصًا خوراک بھی مہیا فرما دی۔ اس لیے صرف اسی کی عبادت بجا لاؤ۔  ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا لاخ  (رکوع 3) تمثیل برائے مومن و مشرک۔ چوتھی عقلی دلیل :  وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ  تا  لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہ (رکوع 4) ، یہ دلیل علی سبیل الاعتراف من الخصم ہے جب تم مانتے ہو کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے تو لا محالہ اس کے سوا کوئی معبود اور پکار کے لائق بھی نہیں ہوگا۔ پانچویں عقلی دلیل :  اللّٰہُ یَتَوَفّیٰ الْاَنْفُسَ  تا۔  یَتَفَکَّرُوْنَ  (رکوع 5) ، پہلی اور دوسری دلیل میں ابتدائی حالات کا ذکر تھا۔ اب اس دلیل میں انسان کی انتہائی حالت کا ذکر ہے حاصل یہ کہ انسان کی ابتداء و انتہاء اللہ تعالیٰ کے تصرف و اختیار میں ہے اس لیے وہی معبود برحق ہے۔اور یاد رہے کہ جن کی روح اللہ موت کے وقت قبض کرتا ہے اسے اپنے پاس روک لیتا ہے یعنی روح قیامت سے پہلے جسم میں واپس نہیں لوٹائے گا۔روح کا قبر میں لوٹانے کا عقیدہ رکھنا،مردے کو زندہ سمجھنا،حاجات و مشکلات میں پکارنا یہ شرک ہے اور اور عادہ روح قبر پرستی کی بنیاد ہے۔  چھٹی عقلی دلیل :  اَوَلَمْ یَعْلَمُوْا  تا  یُؤْمِنُوْنَ  (رکوع 5) ۔ انسان کے ابتدائی اور انتہائی حالات کے بعد اس دلیل میں اس کے درمیانی حالات کا ذکر کیا گیا ہے کہ زندگی میں انسان کو روزی دینے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اور جو خالق و رازق ہو وہی معبود ہوسکتا ہے۔ ساتویں عقلی دلیل :  اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ  تا  لَہٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  (رکوع 6) ، ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے اور ہر چیز کا مھافظ و نگران بھی وہی ہے۔ لہٰذا سب کا معبود بھی وہی ہے۔

 تین: سلسلہ دلائل وحی : پہلی دلیل وحی :  اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ۔۔ الخ  (رکوع 1) ۔ ہم نے آپ پر ایک عظیم الشان کتاب نازل فرمائی۔ جس کا سب سے اہم اور اولین پیغام یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو۔ یہ مسئلہ کسی کا خود ساختہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے۔ دوسری دلیل وحی :  قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہ  تا۔  اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (رکوع 2) ، مجھے وحی کے ذریعے سے حکم دیا گیا ہے کہ میں خالصۃً  الہٰ واحد کی عبادت کروں اس سے معلوم ہوا کہ تخصیص عبادت کا مسئلہ میرا من گھڑت نہیں، بلکہ من عنداللہ ہے۔ تیسری دلیل وحی :  اَللّہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ  تا  فَمَا لَہٗ مِنْ ھَادٍ  (رکوع 3) ، یہ عمدہ اور پر تاثیر کتاب اللہ نے نازل فرمائی ہے۔ ایمان والے اس کی آیتیں سن کر کانپ اٹھتے ہیں۔ یہ کتاب میں نے اپنے پاس سے نہیں بنائی۔ چوتھی دلیل وحی :  اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالحَقِّ  (رکوع 4) ، ہم نے آپ پر پیغام حق کے ساتھ یہ عمدہ اور پر تاثیر کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ اس کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ آپ تو ہماری پیغام سناتے ہیں اپنی طرف سے کوئی دعوی نہیں کرتے۔ پانچویں دلیل وحی علی سبیل الترقی :  وَاتَّبِعُوْا اَحْسَنَ مَااُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ (رکوع 6) ، یہ ترقی من الادنی الی الاعلی ہے۔ پہلے فرمایا اعلان کرو کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا جو کہتا ہوں اللہ کی وحی سے کہتا ہوں۔ پھر فرمایا یہ کیسی عمدہ اور پر تاثیر کتاب ہے (دلیل وحی سوم) ، یہاں فرمایا اس احسن و اعلی کتاب کی دل وجان سے پیروی کرو۔ چھٹی دلیل وحی :  وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ  تا  وَکُنْ مِّنَ الشَّاکِرِیْنَ  (رکوع 7) ، اللہ کی جانب سے میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ شرک سے تمام اعمال صالحہ ضائع ہوجاتے ہیں جس طرح توحید کی طرف اللہ کے حکم سے دعوت دیتا ہوں۔ اسی طرح شرک کا رد بھی اسی کے حکم ہی سے کرتا ہوں۔ اس دلیل وحی کے ضمن میں دلیل نقلی بھی آگئی  وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ  انبیاء سابقین (علیہم السلام) پر بھی یہ وحی نازل کی گئی کہ شرک سے تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔

 چار: سلسلہ بیان ثمرات دلائل : پہلا چھوٹا ثمرہ  لَا اِلٰہَ اِّلَا ھُوَ  (رکوع 1) یہ پہلی عقلی دلیلوں کے بعد ذکر کیا گیا ہے۔ ان دونوں دلیلوں سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ دوسرا چھوٹا ثمرہ  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ  (رکوع 3) ، تیسری عقلی دلیل اور تمثیل مومن و کافر کے بعد دلیل اور تمثیل کا ثمرہ بیان کیا گیا ہے کہ ان سے معلوم ہوگیا کہ تمام صفات کارسازی اللہ کے ساتھ خاص ہیں۔ پہلا بڑا ثمرہ  قُلْ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ  تا  یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْن  (رکوع 4) ، گزشتہ دلائل سے واضح اور روشن ہوگیا کہ ساری کائنات میں متصرف و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لہٰذا اللہ کے سوا مشرکین جن کو پکارتے ہیں وہ تکلیف کو دور کرنے اور نفع پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ دوسرا بڑا ثمرہ  قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  تا  یَخْتَلِفُوْنَ  (رکوع 5) ، یہ لوگ ایسے روشن اور واضح دلائل سے بھی نہیں مانتے اور انکار و جحود پر مصر ہیں۔ اس لیے آپ اللہ سے عرض کریں کہ اے اللہ ! ہمارے اور ان کے درمیان آخری فیصلہ قیامت کے دن تو ہی فرمائے گا۔

 پانج: سلسلہ بیان زجرات :۔ زجر اول :  وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَاء  تا  مَنْ ھُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ (رکوع 1) ، مشرکین جو خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ ان معبودوں کو بالاستقلال مستحق عبادت نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان کی عبادت و تعظیم کو قرب الہیٰ  کا ذریعہ و وسیلہ اور ان کو عنداللہ شفیع سمجھتے ہیں۔ فرمایا دنیا میں دلائل سے انہوں نے تسلیم نہیں کیا۔ آخرت میں ان کو جہنم میں ڈال کر اس اختلاف کا قطعی فیصلہ کروں گا۔ زجر دوم :  وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ تا  عَنْ سَبِیْلِہٖ (رکوع 1) ۔ جب مشرک آدمی پر مصیبت آتی ہے تو وہ خود ساختہ شفعاء سے مایوس ہو کر معبود حق کو پکارتا ہے۔ لیکن اللہ اس کو اپنی مہربانی سے مصیبتوں سے نجات عطا فرما دیتا ہے تو وہ اللہ کو بھول جاتا ہے۔ اوراللہ کے انعامات کو معبودانِ باطل کی طرف منسوب کردیتا ہے۔ زجر سوم :  اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُفَعَاءَ  تا  اِذَا ھُمْ یَسْتَبْشِرُوْن  (رکوع 5) ، یہ زجر اول کی تشریح ہے۔ مشرکین اپنے معبودانِ خود ساختہ کو عنداللہ شفیع غالب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ سراپا عاجز ہیں اور کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے۔ زجر چہارم  فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ تا  وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ  (رکوع 5) ، یہ زجر بطور شکویٰ ہے۔ مشرک انسان جب معبودان باطلہ سے مایوس ہو کر اپنی مصیبت میں اللہ کو پکارتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی فرما کر اس کو مصیبت سے نجات عطا فرماتا ہے تو وہ اس کامیابی کو اپنے علم وفہم کا کمال قرار دیتا ہے اور کہتا ہے میں نے فلاں حیلہ کیا۔ اور فلاں بزرگ کو سفارشی بنایا جس کی وجہ سے مصیبت ٹل گئی۔

 چھ: سلسلہ تقابل بین المؤمن والکافر : اول :  اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ ۔ تا  اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوْا الْاَلْبَاب (رکوع 1) ، دلیل کے بعد مومن و کافر کی صفات میں تقابل کا ذکر کیا گیا۔ ایک وہ (مؤمن) ہے جو راتوں کو اللہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا اور عبادت کرتا ہے اور آخرت کے عذاب سے ڈرتا اور رحمت الہیٰ کی امید رکھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کافر ہے جو ان صفات سے عاری ہے۔ دوم  اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ  تا  ضلٰلٍ مُّبِیْنٍ  (رکوع 3) ، ایک وہ مومن ہے جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے اور اس کا سینہ نور اسلام سے منور ہوچکا ہے۔ اور ایک وہ کافر ہے جس کا دل پتھر کی مانند سخت ہے۔ اور اس میں قبول اسلام کی صلاحیت ہہی موجود نہیں۔ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ سوم :  اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ  بِوَجْہِہٖ سُوْءَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃ  (رکوع 3) ۔ ایک وہ کافر ہے جس کے دونوں ہاتھ قیامت کے دن اس کی گردن کے ساتھ جکڑے ہوں گے اور جہنم کی آگ سے وہ اپنے چہرے کی اوٹ سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ اور اس کے مقابلے میں مومن ہے جو عذاب جہنم سے مامون و محفوظ رہے گا، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟۔ ابتدائے سورت میں دو دلیلوں کے بعد ثمرہ بیان کیا گیا اور سورت کے آخر میں تمام دلائل کے بعد بھی ثمرہ بیان کیا گیا۔  سُبْحٰنَہٗ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ  (رکوع 7) ، تاکہ معلوم ہوجائے کہ تمام دلائل دعویٰ کو صراحت سے ثابت کر رہے۔ اس سورت میں  وَ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَة  (رکوع 2) ، ہجرت کی ترغیب کی طرف اشارہ ہے۔ سورت میں جا بجا تخویف وتبشیر کا بھی ذکر ہے۔تنبیہ: وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ۔۔تا۔۔ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ تک جن لوگوں نے طاغوت،سرکش اور باغیوں کا کفر کر کے اللہ پر ایمان لائے گا تو ایسا شخص ہی بشارت اخروی کا حق دار ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بات کوغور سے سنتے ہیں پھر اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی عقل والے ہیں۔کفر بطاغوت کے بغیر ایمان قابل قبول نہیں ہوتا۔

مختصر ترین خلاصہ

تمہید مع ترغیب، ذکر دعوی تین بار، تفریع بردعوی، دلائل عقلیہ علی سبیل الترقی سات، بیان ثمرہ دلائل چار بار، چھ دلائل وحی۔ ایک دلیل نقلی ضمنًا۔ بیان زجر چار بار تقابل مومنین و کافرین تین بار، ترغیب الی الہجرت فرمائی گئی۔