|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ الانبیاء

سورۃ  الانبیاء مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 21 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے73 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 112آیات ہیں جو7 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام کسی خاص آیت سے ماخوذ نہیں ہے۔ چونکہ اس سورۃ میں وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ تمام انبیاء کی متفقہ مسئلہ (مسئلہ الہٰ) کا ذکر ہے،اور بلخصوص اللہ نے تمام انبیاء(علیہ السلام) کے جسدعنصری  پر اعتراض کا جواب دیاہے۔ اعتراض یہ تھا کہ یہ نبی ہم ہی جیسا ایک بشر ہے۔ سب بشری کمزوریاں اور بشری تقاضے اس میں بھی موجود ہیں جو ہم میں ہیں۔ وہ ہماری طرح ہی کھانے پینے اور چلنے پھرنے کا محتاج ہے اور ہماری طرح نکاح شادیاں بھی کرتا ہے۔اور مرنے کے بعد اسکا جسم بوسیدہ(مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتاہے)لہذا نبی کوئی فرشتہ ہونا چاہیے۔انہیں جواب دیا گیا کہ انبیاء سب کے سب بشر ہی تھے۔ سب بشری تقاضے ان کے ساتھ بھی لگے ہوئے تھے۔ کھانے پینے کے علاوہ وہ سب کے سب موت سے بھی دوچار ہوئے اور آج ان میں سے کوئی بھی زندہ موجود نہیں ہے۔وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ  انکے جسم بھی اللہ نے ایسے نہیں بنائے کہ نہ وہ کھانا کھاتے ہوں نہ ہمیشہ باقی رہنے والے تھے۔یعنی بعد ازوفات اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے جسموں میں ہمیشگی نہیں رکھی۔عیسیٰ (علیہ السلام) جو اس وقت آسمانوں میں زندہ موجود ہیں وہ بھی ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ موت ان کے لیے بھی مقدر ہے۔ اس لیے اس کا نام  الانبیاء  رکھ دیا گیا۔یعنی وہ سورۃ جس میں تمام انبیاءکےمتفقہ مسئلہ(مسئلہ الہٰ)اورانکے جسدعنصری کی حقیقت مذکورہے۔

 سورة انبیاء  کا سورۃ طہ سے ربط

 سورة طہ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ پیغام دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حاجت روا اور کارساز نہیں۔ لہٰذا اسی کو پکارو۔  لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ  (رکوع 1) اب سورة انبیاء میں علی سبیل الترقی یہ بتایا جائے گا کہ نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) بلکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی طرف یہی وحی کی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حاجت روا اور کارساز نہیں۔ لہٰذا اسی کو پکارو،  وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ ۔۔الخ  (رکوع 2)۔

سورة انبیاء کا دعوی یہ ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کی تمام باتیں جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا وہی کارساز اور متصرف و مختار ہے۔ حاجات و مشکلات میں صرف اسی کو پکارو۔ یہ دعویٰ  قَالَ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ  (رکوع 1) میں ذکر کیا گیا ہے اور اس دعوے کے اثبات پر تین عقلی دلیلیں اور گیارہ نقلی دلیلیں (ایک اجمالی عقلی دلیلوں کے درمیان اور دس تفصیلی ان کے بعد) اور آخر میں ایک دلیل وحی ذکر کی گئی ہے۔ سورت کی ابتداء میں دعویٰ سے پہلے اور دعوے کے بعد  کَمَا اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ  تک مشرکین پر زجر و شکوی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر اور قرآن کو جادو کہتے تھے۔ اور آپ کا اور آپ کی لائی ہوئی دعوت کا انکار کرتے ہوئے حجت بازی کرتے اور کہتے تھے کہ یہ تو آدمی ہے پیغمبر تو فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد تین مقدر سوالوں کا جواب دیا گیا ہے۔  وَ مَا اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ ۔۔الخ  یہ پہلے سوال مقدر کا جواب ہے۔یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ہیں وہ سب آدمی اور بشر تھے۔  وَ مَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَدًا لَّایَاکُلُوْنَ الطَّعَامَ  یہ دوسرے سوال مقدر کا جواب ہے یعنی تمام انبیاء (علیہم السلام) کھاتے پیتے تھے اور  وَ مَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ  سے تیسرے سوال مقدر کا جواب دیا گیا ہے یعنی آپ سے پہلے جو پیغمبر تھے وہ بھی دنیا میں ہمیشہ نہ رہے۔بعداز وفات بھی انکے جسموں میں ہمیشگی نہیں رکھی۔  وَ کَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ  (رکوع 2) تخویف دنیوی ہے۔

 تین عقلی دلیلیں : اس کے بعد دعوی توحید پر تین عقلی دلیلیں ذکر کی گئی ہیں (1)  وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ  (2)  وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الخ اور اَ وَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا  (رکوع 3)۔ اس کے بعد مشرکین سے شرک پر دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔  قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ  یعنی کوئی ایک عقلی یا نقلی دلیل پیش کرو۔ مقصد یہ ہے کہ عقل تو مسئلہ توحید کی تائیدکرتی ہے اس لیے وہ شرک کی تائید میں عقلی دلائل لانے سے عاجز ہیں۔ اور نقلی دلیل لانا بھی ان کے بس میں نہیں۔ کیونکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) مسئلہ توحید کی تبلیغ کے لیے بھیجے گئے تھے۔ یعنی ہم نے تو توحید پر عقلی اور نقلی دلائل پیش کردئیے اگر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو۔

 دلیل نقلی اجمالی : اس کے بعد  وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ ۔۔الخ  میں تمام انبیاء سابقین علیہم الصلوۃ والسلام سے مسئلہ توحید کی حقانیت پر اجمالاً نقلی دلیل پیش کی گئی ہے کہ وہ سب مسئلہ توحید ہی کا پیغام لے کر آئے تھے۔  وَ قَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا  مشرکین پر شکوی ہے۔ جس کا سات وجوہات سے جواب دیا گیا ہے۔ وجہ اول  سُبْحٰنَهٗ  اس سے وہ پاک ہے۔وجہ دوم  بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ وہ (رسول)تو بندے ہیں، جنہیں عزّت دی گئی ہے۔

 وجہ سوم  لَایَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وہ اس کے سامنے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔ وجہ چہارم  وَھُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ اوروہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ وجہ پنجم  یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ وجہ ششم  وَ لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی اور وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر صرف اس کے لیے جسے وہ(اللہ) پسند فرمائے ۔ وجہ ہفتم  وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ اور وہ اللہ کی خشیت سے لرزاں رہتے ہیں۔

 اس کے بعد  اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا  تا  کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ  سے تیسری عقلی دلیل ذکر کی گئی ہے۔  وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ  اور اے پیغمبر ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشہ زندہ نہیں رکھا۔ بھلا اگر تم مرجاؤ تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے۔ مشرکین کے لیے زجر اور سوال ثالث کے جواب کا اعادہ ہے۔  خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ  زجر ہے۔  سَاُرِیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ  تخویف دنیوی۔  وَ یَقُوْلُوْنَ مَتیٰ ھٰذَا الْوَعْدُ ۔۔الخ  شکوی۔  لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔۔ الخ  جواب شکوی مع تخویف اخروی۔  وَلَقَدِ اسْتُھْزِي بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ  رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔آپ سے پہلے بھی جنہوں نے انبیاء کا مذاق اڑایا انہیں بھی عذاب نے آگھیرا  قُلْ مَنْ یَّکْلَؤُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ  (رکوع 4) تخویف دنیوی۔  بَلْ ھُمْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّھِمْ مُّعْرِضُوْنَ  اور  اَإْ لَھُمْ اٰلِھَةٌ تَمْنَعُھُمْ  زجر  اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاتِی الْاَرْضَ ۔۔الخ  تخویف دنیوی۔  وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ۔۔ الخ  تخویف اخروی اس کے بعد لائل نقلیہ تفصیلیہ کا ذکر ہے۔

 دلائل نقلیہ بالتفصیل :  دلائل نقلیہ کے ذکر میں تمام صیغے جمع متکلم کے استعمال کیے گئے ہیں جس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ سارے کام ہمارے ہی ہیں کسی دوسرے کا ان میں دخل نہیں۔ دلائل نقلیہ کے ذکر میں ترتیب زبانی ملحوظ نہیں رکھی گئی کیونکہ اصل مقصود اس بات کا بیان ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) توحید کے مبلغ تھے۔

 وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسیٰ وَھٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ  دلیل نقلی تفصیلی اول از موسیٰ و ہارون علیہما السلام۔ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ  (رکوع 5) ۔ دلیل نقلی دوم از ابراہیم (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) نے کس قدر شدت کے ساتھ قوم کو شرک سے روکا۔ اور ان کو آگ سے ہم نے بچایا۔ وَلُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُکْمًا وَّ عِلْمًا  دلیل نقلی سوم از لوط (علیہ السلام)  وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰي مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ ۔ دلیل نقلی چہارم از نوح (علیہ السلام)۔ نوح (علیہ السلام) نے طوفان میں ہمیں پکارا اور ہم ہی نے ان کو طوفان سے نجات دی۔ وَ دٰوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ الخ ۔ دلیل نقلی پنجم از داؤود و سلیمان (علیہما السلام)  وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰي رَبَّهٗ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ الخ ۔ دلیل نقلی ششم از ایوب (علیہ السلام) اپنی تکلیف اور بیماری کا شکوی اللہ سے کیا۔ اور اسی سے تکلیف دور کرنے کی دعا کی۔  وَاِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَالْکِفْلِ الخ  دلیل نقلی تفصیلی ہفتم از  اسماعیل، ادریس اور ذو الکفل علیہم السلام۔  وَ ذَالنُّوْنِ اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا۔۔ الخ  دلیل نقلی ہشتم از یونس (علیہ السلام) مصیبت میں مبتلا ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے آگے گڑ گڑائے اور اللہ کو پکارا۔  وَ زَکَرِیَّا اِذْ نَادٰي رَبَّهٗ رَبِّ لَاتَذَرْنِیْ فَرْدًا الخ  دلیل نقلی نہم از زکریا (علیہ السلام) ۔ اولاد کی آرزو پیدا ہوئی تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ ماقبل انبیاء و اولیا کو نہیں پکارا۔  اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ ۔۔الخ  یہ آیت تمام مذکورہ واقعات سے متعلق ہے۔ یعنی یہ تمام مذکورہ انبیاء (علیہم السلام) نیکی کے کاموں کو دوڑ کر بجا لاتے اور امید و بیم کی حالت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو غائبانہ پکارتے تھے۔  وَالَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا۔۔ الخ ۔ دلیل نقلی دہم از عیسیٰ (علیہ السلام) ۔  اِنَّ ھٰذِهٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً الخ  اس میں انبیاء (علیہم السلام) کی پوری جماعت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین ایک ہی تھا۔ وہ سب حاجات و مصائب میں اللہ ہی کو متصرف و کارساز سمجھ کر پکارتے تھے۔ لہٰذا وہ سب اللہ تعالیٰ کے محتاج تھے۔ اور خود کارساز اور حاجت روا نہ تھے۔  وَاَنَا رَبُّکُمْ  واؤ تفسیریہ ہے اور یہ جملہ ما قبل کی تفسیر ہے۔  وَتَقَطَّعُوْا  یہ سوال مقدر کا جواب ہے یعنی اگر تمام پیغمبر توحید کے داعی تھے پھر ان کو کیوں پکارا گیا جواب دیا گیا کہ ان کے بعد باغی لوگوں نے توحید میں اختلاف کیا اور لوگوں کو گمراہ کردیا  فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ اور جو شخص نیک عمل کرے اس حال میں کہ وہ مومن ہو سو اس کی محنت کی ذرا بھی ناقدری نہیں  کی جائے گی یعنی اعمال صالحہ اسی صورت میں قابل قبول ہونگے کہ اعمال نامے میں شرک نہ پایا گیا ہو،مشرکوں کو امام بنانے سے اجتناب کیا گیا ہو،انکو بیٹی کا رشتہ نہ دیا گیا ہو،انکے لیے دعائے مغفرت نہ کی گئی ہو،الغرض کی اہل شرک سے مکمل بیزاری کی گئی ہو۔ایسے لوگوں کے لیے یہ بشارت اخروی ہے۔  حَتّٰی اِذَا فُتِحَتْ یَاجُوْجُ وَ مَاجُوْجُ  (رکوع 7) تخویف دنیوی۔  اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ  تخویف اخروی۔  وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ الخ  بشارت دنیوی ہے۔  قُلْ اِنَّمَا یُوْحیٰ اِلَیَّ اِنَّمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ توحید پر دلیل وحی ہے۔  وَاِنْ اَدْرِيْ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ الخ  آخر میں دعویٰ سورۃ کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ وہی غیب داں اور متصرف و کارساز ہے۔

 مختصر ترین خلاصہ

انبیاء کے متعلق یہ الزام نہ لگاؤ کہ غیراللہ کی پکار کی انہوں نے یا انکے ماننے والوں نے تعلیم دی ہے بلکہ تمام انبیاء کی طرف اللہ نے یہی وحی کی کہ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ  میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔ اس ٹھوس حقیقت کے برعکس بعد والے وَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ اپنے دین میں اختلاف کر کے لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔مکمل وضاحت کے بعد فرمادیا گیا کہ اگر وہ پھر بھی روگردانی کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ میں نے تم سب کو یکساں طور پر خبردار کردیا ہے، اب میں یہ نہیں جانتا کہ قریب ہے یا بعید جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔