|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورة الفرقان

سورۃ الفرقان مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 25 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے42 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 77آیات ہیں جو6 رکوع پر مشتمل ہیں۔ اس سورۃ کا نام پہلی ہی آیت  تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا سے ماخوذ ہے۔ فرقان مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی حق و باطل کو یا کفر اور ایمان کو بالکل الگ الگ کرکے دکھلانے والا۔ اور اس سے مراد قرآن ہے۔ جس نے ایمان اور اس کے مقابلہ میں کفر و شرک اور نفاق کی ایک ایک خصلت کو یوں واضح کرکے بتلا دیا ہے کہ کچھ ابہام باقی نہیں رہتا۔تبارک کا مادہ ب ر ک ہے۔ اسی سے لفظ برکت ہے اور کسی چیز سے زیادہ سے زیادہ متوقع یا غیر متوقع فوائد حاصل ہوجانے کا نام برکت ہے۔ اور بابرکت وہ ذات ہے جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ متوقع اور غیر متوقع فوائد پہنچانے والی ہو۔لہذا اس صفات کا حامل تعویذات کو سمجھنا کہ برکات تعویذات سے حاصل کی جاسکتی ہیں یہ  شرک ہے۔جسکی اس سورۃ میں ممانعت کی گئی ہے۔ 

 :سورة الفرقان کا سورۃ النور سے ربط

سورة نور میں فرمایا  اللہ نور السموت والارض  یعنی مسئلہ توحید ہی زمین و آسمان کا نور ہے اسی سے سارے عالم میں اجالا اور اسی سے سارا جہان قائم ہے۔ اور سورة فرقان میں فرمایا  تبرک الذی نزل الفرقان ۔۔الخ  یعنی یہی نور توحید حق و باطل کے درمیان فرقان ہے یا اسی نور کی توضیح کے لیے اللہ نے فرقان نازل فرمایا۔

 سورة کہف سے لے کر یہ مضمون بیان کیا جا رہا ہے کہ  لم یتخذ ولدا  یعنی سارے جہان کا خالق، سارے عالم کا مدبر اور تمام امور میں متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا کوئی کوئی نائب نہیں اور نہ اس نے اپنا کوئی اختیار کسی کے حوالے کر رکھا ہے لہٰذا وہی سب کا کارساز اور حاجت روا ہے، مصائب و مشکلات میں صرف اسی کو پکارو اور صرف اسی کے نام کی نذریں منتیں دو ۔ اب سورة فرقان سے سورة سبا تک بطور ثمرہ و نتیجہ یہ بیان ہوگا کہ جب کارساز اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کا کوئی نائب نہیں تو برکات دہندہ اور ہر خیر و برکت کا سرچشمہ بھی وہی ہے لہٰذا اسی کو برکات دہندہ سمجھ کر پکارو اور اسی سے برکات طلب کرو۔

سورۃ کا دعوی یہ ہے کہ برکات دہندہ اللہ تعالیٰ  کی ذات ہے۔ دنیا اور آخرت کی خیر و برکت اسی کی جانب سے ہے۔ یہ دعوی سورۃ میں تین جگہ مذکور ہے۔ اول ابتداء سورت  تبارک الذی نزل الفرقان ۔۔الخ  میں۔ دوم  تبرک الذی ان شاء ۔۔الخ  (رکوع 2) میں۔ ان دونوں جگہوں میں ذکر دعوی کے بعد دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ دنیوی برکات دہندہ اللہ تعالیٰ ہے۔ سوم  تبرک الذی جعل فی السماء ۔۔الخ  (رکوع 6) میں۔ تیسری بار ذکر دعوی سے مقصود یہ ہے کہ اخروی برکات بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ اس سورت میں زیادہ زور عقلی دلائل پر دیا گیا ہے اور دلائل نقلیہ کی طرف محض اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ دعوی سورۃ پر تیرہ دلائل عقلیہ بالتفصیل اور سات دلائل نقلیہ بالاجمال ذکر کیے گئے ہیں اور دلائل کے درمیان سات شکوے مذکور ہیں۔

 دلائل عقلیہ :پہلی عقلی دلیل۔ پہلی بار ذکر دعوی کے ساتھ  الذی نزل الفرقان علی عبدہ ۔۔الخ  فرمایا یعنی برکات دہندہ وہی ہے جس نے تمام دینی اور دنیوی برکات کا خزانہ یعنی  قرآن  نازل فرمایا۔ دوسری عقلی دلیل۔  الذی لہ ملک السموت والارض۔۔ الخ  برکات کا سرچشمہ وہی ذات پاک ہے جس کے قبضہ و تصرف میں سارا جہان ہے اور جس کا کوئی نائب و شریک نہیں۔ تیسری عقلی دلیل۔  و خلق کل شیء الخ  جس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اور ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کیا وہی برکات دہندہ ہے اس کے سوا کوئی اور برکات دہندہ نہیں۔ چوتھی عقلی دلیل۔ دعوے پر عقلی دلیلوں کے بعد  واتخذوا من دونہ۔۔ الخ  میں مشرکین پر زجر ہے جنہوں نے اللہ کے عاجز اور بےبس بندوں کو متصرف و مختار اور برکات دہندہ سمجھ رکھا ہے اور اس کے ضمن میں چوتھی عقلی دلیل مذکور ہے یعنی اصل میں برکات دہندہ تو اللہ تعالیٰ ہے جو ساری کائنات کا خالق ہے اور سب نفع نقصان اور موت وحیات جس کے قبضے میں ہے۔

 وقال الذین کفروا۔۔ الخ  یہ شکوی اول ہے مشرکین نے ازراہ عناد کہا یہ دعوی کہ برکات دہندہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود ساختہ ہے۔

 واعانہ علیہ۔۔ الخ  یہ دوسرا شکوی ہے یعنی کچھ دوسرے لوگ اس میں اس کے معاون ہیں۔

 وقالوا اساطیر الاولین ۔۔الخ  یہ تیسرا شکوی ہے انہوں نے کہا یہ قرآن پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جو صبح و شام دہرائے جاتے ہیں۔  قل انزلہ الذی۔۔ الخ  یہ تینوں شکو وں کا جواب ہے اور اصل دعوی پر پانچویں عقلی دلیل بھی۔ یہ دعوی کسی کا خود ساختہ نہیں اور نہ یہ قرآن قصے کہانیاں ہے، بلکہ یہ دعوی اور یہ قرآن اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے جو ظاہر و باطن کو جانتا ہے۔ جب عالم الغیب وہی ہے تو مفیض برکات بھی وہی ہے۔  

وقالوا ما لھذا الرسول۔۔ الخ  یہ چوتھا شکوی ہے یہ تو کھاتا پیتا اور بازاروں میں کاروبار کرتا ہے یہ کس طرح رسول ہوسکتا ہے۔ رسول تو فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔

 لو لا انزل الیہ ملک۔۔ الخ  پانچواں شکوی، اگر رسول اللہ فرشتہ نہ ہوتا تو کم از کم اس کے ساتھ ہی کوئی فرشتہ بھیجدیا جاتا جو اس کی تائید کرتا۔

 او یلقی الیہ کنز۔۔ الخ  چھٹا شکوی، رسول کی تو بڑی ٹھاٹھ اور شان و شوکت ہونی چاہیے۔ وہ خزانوں اور باغوں کا مالک ہونا چاہیے، ان تینوں شکو وں کے جوابات لف و نشر غیر مرتب کے طور پر آگے آرہے ہیں۔  وقال الظلمون۔۔ الخ  یہ مذکورہ تینوں شکو وں سے متعلق ہے۔  تبرک الذی ان شاء۔۔ الخ  (رکوع 2) یہ دعوی سورت کا اعادہ ہے اور لف و نشر غیر مرتب کے طور پر چھٹے شکوے کا جواب ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی آپ کو خزانے اور باغات دے سکتا ہے لیکن نعیم آخرت آپ کے لیے شوکت دنیوی سے کہیں بہتر ہے۔  بل کذبوا بالساعۃ  تا  ثبورا کثیرا  تخویف اخروی ہے۔  قل اذلک خیر  تا  وعدا مسؤلا  ماننے والوں کے لئے بشارت اخروی ہے۔  یوم نحشرھم  تا  نذقہ عذابا کبیرا  مشرکین کے لیے تخویف اخروی ہے اور خصوصیت سورۃ  کا بیان ہے یعنی جن کو مشرکین دنیا میں برکات دہندہ سمجھ کر پکارتے ہیں قیامت کے دن وہ صاف اعلان کریں گے کہ وہ کارساز اور برکات دہندہ نہیں تھے۔ برکات دہندہ اور کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔  وما ارسلنا قبلک من المرسلین  تا  وکان ربک بصیرا  یہ چوتھے شکوے کا جواب ہے آپ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر آئے وہ سب بشر تھے اور سب لوازم بشریہ سے متصف تھے، ہماری سنت جاریہ ہی یہی ہے۔  وقال الذین لا یرجون۔۔ الخ  (رکوع 3) یہ پانچویں شکوے کا اعادہ ہے مع الزیادہ، یعنی زائد بات کے ساتھ، مشرکین اور منکرین کہتے ہیں ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں ہوئے جو ہمارے پاس آکر اس پیغمبر کی تصدیق کریں یا اللہ تعالیٰ بالمشافہہ ہمیں پیغمبر (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا حکم دے، یہ زائد بات ہے۔  یوم یرون الملئکۃ ۔۔الخ  یہ پانچویں شکوے کا جواب ہے۔ فرشتوں کو دیکھ لینے سے انہیں کوئی فائدہ ہوگا نہ خوشی ہوگی۔ فرشتوں کو دیکھ کر بھی اگر وہ نہ مانیں گے تو سخت ترین عذاب میں مبتلا ہونگے۔  اصحب الجنۃ یومئذ ۔۔الخ  بشارت اخروی۔  ویم تشقق السماء  تا  ھذا القرآن مہجورا  تخویف اخروی۔  وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا ۔۔الخ  کاف بیان کمال کے لیے ہے۔

 وقال الذین کفروا لولا نزل علیہ۔۔ الخ  یہ ساتوں شکوی ہے۔ یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کیوں نازل ہوتا ہے سارا ایک بار کیوں نہیں نازل کیا گیا ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم تھوڑا تھوڑا کر کے خود بناتے ہو۔  کذالک لنثبت بہ فؤادک ۔۔الخ  یہ شکوی مذکورہ کا جواب ہے۔ قرآن مجید تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کا مقصد آپ کے دل کی تثبیت ہے۔  ولا یاتونک بمثل ۔۔الخ  ساتوں شکو وں کا جواب دے کر فرمایا ان کے علاوہ ان کی طرف سے جو بھی شبہہ وارد کیا جائے گا اس کا نہایت شافی اور احسن جواب دیا جائے گا۔  الذین یحشرون علی وجوھھم۔۔ الخ  یہ تخویف اخروی ہے۔

 :دلائل نقلیہ

ان قوموں کے پاس اللہ کے پیغمبر یہی دعوی تبارک لے کر آئے لیکن انہوں نے نہ مانا اس لیے ان کو ہلاک کردیا گیا۔  ولقد نوح لما کذبوا ۔الخ  دوسری نقلی دلیل مع تخویف دنیوی۔  وعاد وثمود  ا  وکلا تبرنا تتبیرا  دلیل نقلی سوم تا ششم مع تخویف دنیوی۔  ولقد اتوا علی القریۃ الخ  ساتویں نقلی دلی۔  و اذا راوک  تا  بل ھم اضل سبیلا  زجریں ہیں۔  الم تر الی ربک کیف مد الظل۔۔ الخ  (رکوع 5) یہ دعوی سورت پر چھٹی عقلی دلیل ہے۔ سائے کا بڑھنا گھٹنا جو سورج کی رفتار پر منحصر ہے اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔  وھو الذی جعل لکم الیل الخ  ساتویں وآٹھویں عقلی دلیل خوشخبری لانے والی ہوائیں اور بارش جس سے بنجر زمینیں زرخیز ہوجاتی ہیں اور جس سے تمام انسانوں اور حیوانوں کو پینے کا پانی میسر آتا ہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے تو معلوم ہوا کہ ہر خیر و برکت اسی کی جانب سے ہے، اور وہی برکات دہندہ ہے اور اس کے سوا کوئی اور برکات دہندہ نہیں۔  ولقد صرفنہ بینھم لیذکروا۔۔ الخ  یہ ان معاندین پر زجر ہے جو اس قدر واضح دلائل کے باوجود نہیں مانتے اور اللہ کے سوا اوروں کو برکات دہندہ سمجھ کر ان سے مانگتے ہیں۔  وھو الذی مرج البحرین۔۔ الخ  نویں عقلی دلیل۔ یہ بھی اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے کہ دو مختلف الذائقہ دریا بلا حائل اکٹھے چلتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ آپس میں مل نہیں سکتے۔  وھو الذی خلق من الماء۔ الخ  دسویں عقلی دلیل۔ یہ بھی اس کی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے قطرہ آب سے اشرف المخلوقات بشر کو پیدا فرمایا اور پھر انسانوں کو باہمی رشتوں میں منسلک کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی معطی برکات اور مفیض خیرات ہے اور کوئی نہیں  ویعبدون من دون اللہ ۔۔الخ  یہ دلائل مذکورہ کا ثمرہ ہے بطور زجر۔ دلائل مذکور سے ثابت ہوگیا کہ برکات دہندہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں مگر اس کے باوجود مشرکین اپنے خود ساختہ معبودوں کو برکات دہندہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ان کے نفع کے مختار ہیں نہ نقصان کے۔  و ما ارسلنک الا مبشرا و نذیرا  یہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ مشرکین کا مطالبہ تھا کہ ہم جو معجزہ مانگیں دکھا دو تو ہم مان لیں گے فرمایا معجزہ دکھانا آپ کے اختیار میں نہیں آپ کو تو نذیر و بشیر بنا کر بھیجا گیا۔  و توکل علی الحی۔۔ الخ لہذا توکل و بھروسہ اس زندہ رب پر کرو جسے موت نہیں ہے ،تعویذات کو (قرآنی و غیر قرآنی)شرعیت میں شرک قرار دیا گیا ہے (مسند احمد:جلد ہفتم: عقبہ بن عامر جہنی (رض) کی مرویات :حدیث نمبر 573)۔برکات دہندہ تعویذات نہیں ہیں بلکہ اللہ کی ذات ہے۔اوریہ  و توکل علی الحی۔۔ الخ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ یعنی اگر اس قدر واضح دلائل کے باوجود بھی مشرکین نہیں مانتے اور آپ تکلیفیں دیتے ہیں تو آپ اللہ پر بھروسہ کریں جو زندہ جاوید ہے۔  الذی خلق السموات والارض الخ  یہ دعوی سورۃ پر گیارہویں عقلی دلیل ہے سارے جہان کا خالق بھی وہی ہے اور سارے جہاں میں متصرف و مختار بھی وہی ہے اس نے تدبیر عالم کا کوئی کام کسی کے حوالے نہیں کر رکھا لہٰذا اس کے سوا برکات دہندہ بھی کوئی نہیں۔  واذا قیل لھم اسجدوا الخ  یہ شکوی ہے۔ جب مشرکین سے صرف الہٰ واحد کو سجدہ کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ اس سے نفرت کرتے ہیں۔  تبرک الذی جعل فی السماء۔۔ الخ  (رکوع 6) ۔ یہ دعوی سورت کا دوسری بار اعادہ ہے اور دعوی پر بارہویں عقلی دلیل ہے۔ جس طرح دنیا میں برکات دہندہ اللہ تعالیٰ ہے اسی طرح آخرت کی برکات بھی اسی کے قبضے میں ہیں۔ چنانچہ اللہ کے جن نیک بندوں کا آگے ذکر آرہا ہے آخرت میں ان کو جو برکات نصیب ہوں گی وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ان کو ملیں گی۔  وھو الذی جعل الیل وانھار۔۔ الخ  یہ تیرہویں عقلی دلیل ہے۔  وعباد الرحمن الذین یمشون  تا  واجعلنا للمتقین اماما  میں اللہ کے نیک بندوں کی آٹھ صفتیں بیان کی گئی ہیں۔  اولئک یجزون الغرفۃ  تا  حسنت مستقرا و مقاما  میں مذکورہ بالا صفات سے متصف اللہ کے بندوں کو آخرت میں ملنے والی برکات کا ذکر کیا گیا ہے۔  قل ما یعبوا بکم ربی الخ  تخویف دنیوی۔ الحاصل برکات دہندہ وہی ذات بابرکات ہے جس نے فرقان نازل فرمایا، جو ساری کائنات کا مالک، ہر چیز کا خالق، نفع نقصان اور موت وحیات کا مختار، عالم الغیب اور تمام نظام کائنات جس کے اختیار و تصرف میں ہے ایسے واضح دلائل کے باوجود مشرکین محض ضد وعناد کی وجہ سے قرآن کو خود ساختہ اور پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتے ہیں حالانکہ اس قرآن کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے جو عالم الغیب ہے۔ پیغمبر (علیہ السلام) کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ کھاتا پیتا ہے۔ اس کی تائید کے لیے کوئی فرشتہ اس کے ساتھ آنا چاہیے تھا۔ نیز اس کے پاس دولت کے خزانے ہوتے، فرمایا پہلے تمام انبیاء (علیہم السلام) بھی کھاتے پیتے تھے اور بشر تھے، فرشتوں کا آنا ان کے لیے خوشی کا باعث نہ ہوگا اور اگر اللہ چاہتا تو پیغمبر (علیہ السلام) کو دنیا میں بےحساب دولت دے دیتا لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا کے بجائے آخرت میں آپ کو بےحد و حساب انعام واکرام سے نوازے۔ مشرکین کا یہ بھی اعتراض ہے کہ سارا قرآن ایک ہی بار کیوں نازل نہیں ہوا۔ فرمایا تھوڑا تھوڑا نازل کرنے سے آپ کی تثیت خاطر ملحوظ ہے۔ مشرکین کے یہ تمام شبہات باطل ہیں جیسا کہ مذکورہ جوابات سے واضح ہوگیا ان کے علاوہ بھی اگر وہ کوئی اعتراض کرینگے تو اس کا بھی نہایت شافی جواب دیا جائے گا ۔ ان تمام دلائل سے ثابت ہوگیا کہ دنیا و آخرت میں برکات دہندہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں ایسے واضح دلائل عقلیہ اور شکوک و شبہات کے ایسے شافی جوابوں کے بعد بھی اگر وہ نہ مانیں تو انہیں قوم فرعون، قوم عاد، قوم ثمود، قوم شعیب اور دیگر امم سابقہ کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے جنہیں ان کے انکار  کی وجہ سے ہلاک کردیا گیا۔

 مختصر ترین خلاصہ

 دعوی سورت کا تین بار ذکر، دعوی سورۃ پر تیرہ عقلی اور سات نقلی دلیلوں کا ذکر۔ دعوی مذکورہ کے بارے میں سات شکو وں اور شبہوں کے جوابات زجر و تخویف، تسلیہ، اللہ کے نیک بندوں کے اوصاف کا تفصیلی ذکر ہے۔