اسلام نے بیوہ کی عدت (یعنی انتظار کی مدت) کو ایک خاص مدت تک لازم قرار دیا ہے، تاکہ شوہر کے انتقال کے بعد عورت کی عزت، جذبات اور نسب کی حفاظت ہو۔ یہ حکم قرآن و سنت پر مبنی ہے اور حکمت و رحمت پر مشتمل ہے۔
وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا ۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ
اور جو لوگ تم میں سے فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو چا ہیے کہ وہ (بیویاں) اپنے آپ کوچار مہینے اور دس دن انتظار میں رکھیں تو جب وہ اپنی (عدت کی) مُدّت پوری کرلیں تو تم پر کو ئی گناہ نہیں ہے کہ وہ جو بھی اپنے حق میں معروف طریقہ کےمطابق (فیصلہ) کریں اور جوکچھ تم کررہے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔
(البقرہ-234)
یہ آیت بیوہ کی عدت کی مدت کو واضح طور پر چار ماہ اور دس دن مقرر کرتی ہے، جو قمری مہینوں کے حساب سے شمار کیے جاتے ہیں۔ اس مدت کے دوران بیوہ عورت نکاح نہیں کر سکتی، زیب و زینت سے پرہیز کرتی ہے، اور اللہ سے رجوع اور صبر کے ساتھ زندگی کی نئی راہ کے لیے تیار ہوتی ہے۔
اسلام بیوہ کو تنہائی یا ظلم میں نہیں چھوڑتا، بلکہ عدت کے بعد نکاحِ ثانی کی اجازت بھی دیتا ہے اور وراثت کے حقوق بھی دیتا ہے۔ عدت کا حکم اللہ کی طرف سے ایک آزمائش بھی ہے اور ایک حفاظت بھی۔