|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اہل ایمان کو اللہ کا کیسا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے؟

قرآنِ مجید نے اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ کا سچا، مکمل اور خالص تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، جو صرف رسم یا زبانی دعویٰ نہ ہو، بلکہ پورے دین پر عمل کے جذبے سے ہو۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِۦ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔
(آلِ عمران 102)

یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ تقویٰ صرف چند اعمال کا نام نہیں، بلکہ اللہ کے ہر حکم کو دل سے ماننا ہر حرام سے بچنا اور اپنی زندگی کو مکمل طور پر اسلام کے تابع کرنا۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت سے یہ تقویٰ یوں ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ہر معاملے میں اللہ کا خوف دل میں رکھا، چاہے وہ عبادات ہوں، معاملات، یا لوگوں کے حقوق۔

صحابہ کرامؓ اس آیت کے نازل ہونے پر کانپ اٹھے اور کہا ہم میں سے کون اللہ سے اس طرح ڈر سکتا ہے جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے؟ تو اللہ نے دوسری آیت نازل فرمائی

فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ
پس اللہ سے ڈرو جتنی تم میں طاقت ہے۔
(التغابن 16)

یعنی کوشش، اخلاص، اور مسلسل جدوجہد ضروری ہے۔ اہلِ ایمان کا تقویٰ یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر حال میں اللہ کی نافرمانی سے بچیں ہر حکم کی تعمیل کریں، چاہے مشکل لگے اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی روشنی اختیار کریں۔ یہی سچا تقویٰ ہے، اور یہی مؤمن کی اصل پہچان۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔