قرآنِ مجید نے عقیدۂ توحید کو ہر قسم کے تعلقات اور جذبات پر مقدم رکھا ہے۔ چاہے نبی ہو یا عام مسلمان، کسی مشرک یا کافر کے لیے دعا یا مغفرت کی التجا اس وقت ممنوع ہو جاتی ہے جب وہ حق کو جاننے کے باوجود کفر پر مرے۔ نبی کریم ﷺ کی رحمت اور شفاعت کا دائرہ بھی اللہ کے حکم کے تابع ہے، اور یہ عقیدۂ توحید کی حفاظت کی بنیاد ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُو۟لِي قُرْبَىٰ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَحِيمِ
نبی اور ایمان والوں کو یہ لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت طلب کریں، چاہے وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں، بعد اس کے کہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ دوزخی ہیں۔
( التوبہ 113)
اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کے لیے دعا کرنا چاہی، لیکن چونکہ وہ ایمان کے بغیر دنیا سے گئے، تو اللہ تعالیٰ نے اس عمل سے روکا۔ اسی طرح سورہ توبہ کی آیت 80 میں منافقین کے لیے بھی دعا کرنے سے منع کر دیا گیا، خواہ ستر مرتبہ بھی کیوں نہ ہو، کیونکہ انہوں نے اللہ و رسول سے کھلا کفر کیا۔
یہ آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ محبت، قرابت، ہمدردی یا نبی کی شفاعت کسی کا بھی فائدہ اس وقت تک نہیں جب تک ایمان نہ ہو۔ توحید کی اساس یہ ہے کہ مغفرت صرف اللہ کے اختیار میں ہے، اور اس کا دروازہ صرف ایمان و اخلاص سے کھلتا ہے۔
نبی ﷺ کی زندگی اور تعلیمات بھی اسی عقیدۂ توحید کو ہر معاملے میں مقدم رکھنے کی عملی مثال ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی کافر یا مشرک کی موت کے بعد مغفرت کی دعا نہیں کی، اور امت کو بھی یہی سکھایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ کا دین جذبات نہیں بلکہ عدل، علم اور عقیدے پر مبنی ہے۔
پس ہمیں بھی چاہیے کہ ہم دعا، استغفار اور شفاعت جیسے معاملات میں قرآن و سنت کی رہنمائی پر چلیں، اور توحید کے راستے پر ثابت قدم رہیں، کسی کافر و مشرک کی دعائے استغفار و صلوۃ جنازہ سر ہر قیمت بچ کر رہیں کہ اللہ کی رضا اور مغفرت کے حق دار بن سکیں۔