|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اصحاب کہف کے واقعے سے جھگڑے کرنے والوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے؟ “لا تمار فيهم إلا مراءً ظاهرا” کا مطلب کیا ہے؟

قرآن مجید میں اصحابِ کہف کے واقعے کو بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے اس واقعے سے متعلق غیر ضروری بحث و مباحثے اور اندازے لگانے والوں کے بارے میں واضح ہدایت دی ہے

فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَآءًۭ ظَـٰهِرًۭا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًۭا
تو ان کے بارے میں بحث نہ کر مگر ظاہری بحث (یعنی مختصر اور واضح انداز میں)، اور ان کے بارے میں ان (یہودیوں یا عیسائیوں) میں سے کسی سے کچھ نہ پوچھ۔
(الکہف 1822)

لَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا کا لفظی مطلب
لا تمارِ = جھگڑا نہ کرو / بحث نہ کرو
إلا مراءً ظاهرا = سوائے ظاہری (ہلکی، سطحی) بات کے

مراد
لوگوں نے اصحابِ کہف کی تعداد، کتے کا رنگ، ان کی مدتِ نیند، اور دیگر جزئیات پر غیر ضروری اور قیاسی مباحثے شروع کر دیے تھے۔

اللہ نے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ
تم اس معاملے میں بلاوجہ جھگڑا نہ کرو، نہ ہی بے فائدہ تفصیل میں جاؤ، بلکہ جو کچھ وحی سے واضح ہے، اتنا ہی بیان کرو

بتایا گیا کہ عقیدہ واقعے کا اصل مقصد عقیدے کی تعلیم ہے، تفصیلات کی نہیں۔ قیاسی باتوں سے دین کی روح متاثر ہوتی ہے لہذا اس باتوں میں جھگڑے سے پرہیز کرو۔ اور یاد رہے کہ علم کا اصل ذریعہ وحی ہے، نہ کہ بے بنیاد روایتیں یا ظنّیات۔ اہلِ کتاب انہی بحثوں میں الجھ کر حق سے دور ہو گئے، اس لئے امت مسلمہ کو اس سے بچایا گیا۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔